کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 9
عالمی ملت کی تشکیل کی ہے۔ اس عالمی ملت میں افتراق کی دعوت چاہے وہ ممالک کی سرحدوں کی بنا پر ہو، یا رنگ ونسل کی بنا پر، یہ امر اسلام میں ناقابل قبول ہے۔ الغرض امتیاز Discriminationکی نفی کی تلقین کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے محورِ امتیاز اور غیر مسلموں کے نفیِ امتیازمیں فرق کو واضح رکھنا چاہئے۔
یاد رہنا چاہئے کہ جدید مغربی ریاست کسی بھی فکر و نظریہ کی بنا پر امتیاز کی نفی کرتی حتیٰ کہ مذاہب کے مابین امتیازات کو بھی فرقہ واریت قرار دے کر اس کی بیخ کنی کرتی ہے اور مادرِ وطن کے باشندوں اوردیگر ممالک کے رہائشیوں کو برابر کا اِنسان ہی تسلیم نہیں کرتی۔ جدید فکر وتہذیب پر ایمان رکھنے والا انسان ریاست کے حق کو سب سے بالا تر قرار دیتا ہے جس میں انسان نے جنم لیا، جبکہ اسلام پر یقین رکھنے والا فرد خالق کے حق(بندگی) کو اَوّلین فرض سمجھتا ہے، جو انسان و دھرتی سمیت، ساری کائنات اور اس کے ماں باپ تمام کا خالق ومالک اور رازق ہے۔ جدید ریاست ، ریاست کے باغی کو جینے کے حق سے محروم کردیتی ہے، اور اسلام اپنے ماننے والے کے منحرف ومرتد ہونے پر اس کے مباح الدم ہونے کا نظریہپیش کرتا ہے۔
اِسی نوعیت کے تبادلہ افکار پر مشتمل ۱۳/اکتوبر کو ورکشاپ کا پہلا دن اختتام کو پہنچا۔پہلے لیکچر کے دوران ہی ہمیں اسلام آباد میں پروفیسر عبد الجبار شاکر رحمہ اللہ کی رحلت کی افسوسناک خبر موصول ہوئی۔ اس خبر کو سنتے ہی ہفت روزہ ’الاعتصام‘ کے مدیر حافظ احمد شاکر ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لئے شیخوپورہ روانہ ہوگئے اور بعد کے دنوں میں ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔
اگلے دن ایف سی کالج، لاہور کے شعبۂ دینیات کے چیئرمین پروفیسر حافظ عبد الغنی اورچیئرمین شعبہ ابلاغیات جناب سلیم قیصر عباس کے دو لیکچرزتھے۔ جبکہ بعد از سہ پہر سید راشد شاہ بخاری (نمائندہ ’سرچ فار کامن گرائونڈ‘) کا بھی لیکچر تھا۔
اسلام ایک جامع وکامل علمیت کا نام ہے، جو قرآن وسنت سے براہِ راست مُستنیر ہے، اس کے بالمقابل مغربی تہذیب انسانی فکر وفلسفہ کی پرزور داعی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بھی دو مختلف اہداف ومقاصد اور سرچشموں سے کسی نظریہ کا جائزہ لیا جائے گا، تو لب ولہجہ، حرف وکنایہ اور مقصود ومدعا میں اختلاف لازمی امر ہے۔ کسی ظاہر بین سے یہ اختلاف ایک حد تک چھپا رہ