کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 8
ریاست کے لئے متحد ہوکرکام کرنے کی اہمیت پرزور دیا۔
موصوف کا یہ اِظہاریہ بھی قابل وضاحت تھا، اس بنا پر راقم نے اَوّلاً توعدل کے ضمن میں یہ وضاحت کی کہ اقوامِ عالم میں عدل کی ضرورت واہمیت پر کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی اور عدل وانصاف کسی بھی معاشرہ کا پہلا تقاضا ہے، لیکن اسلام کی رو سے اصل نکتہ محض عدل کا قیام نہیں ، بلکہ عدل کی میزان کا ہے اور یہ نکتہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام کی رو سے حقیقی عدل صرف اللہ کی شریعت(کتاب اللہ) پر ہی ہونا ممکن ہے، اس کے سوا عدل کے دیگر میزانات ظاہری، محدود اور غیرمتوازن انصاف مہیا کرتے ہیں ۔ عالمی استعمار سیکولرزم کا علم بردار اور نگہبان ہونے کی بنا پر کسی بھی مسلم ریاست میں کتاب اللہ کو عدل کے میزان بنانے کی کسی گنجائش میسر آنے کا روا دار نہیں ، اورمغربی اقوام کا یہ رویہ مذہبی آزادی کے دعویدار ہونے کے ناطے سراسر ظالمانہ ہے۔
علاوہ ازیں امتیاز کے خاتمے کے سلسلے میں یہ بات ملحو ظ رہنا ضروری ہے کہ ہر قوم کے امتیاز کا نظریہ اس کے مرکزی مقصد وہدف سے مربوط ہوتا ہے اور وہ اسی امتیاز کے خاتمے کی بات کرتی ہیں ۔ چونکہ مغربی اقوام نظریۂ قومیت ووطنیت کی اَن تھک علم بردار ہیں اور نیشنلزم ان کے فکر ونظریہ کا بنیادی ستون ہے، ا سی لئے کسی ایک وطن کے باشندوں میں کسی قسم کے نسلی، گروہی حتیٰ کہ مذہبی اَساسات پر گروہ بندی کی بھرپور مخالفت پائی جاتی ہے اور تمام کو ایک قوم بن کر مادرِ وطن کی خدمت کی پرزورتلقین کی جاتی ہے اور وطن کے حقوق کو ہی بالاترین حق باور کرایا جاتا ہے۔ اس کے بالمقابل اسلام کا نظریۂ امتیاز اللہ کی بندگی اور اس کے دین کی اطاعت وعبادت سے منسلک وہم آہنگ ہے۔ کالے وگورے، عربی وعجمی اور امیر وغریب کی بنا پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمہ نوعیتی امتیاز کی نفی کرکے اسے جاہلیت قرار دیا ہے، لیکن وطن اور دھرتی سے محبت کی بجائے ایک اللہ کی بندگی کرنے والوں کو باہمی اُخوت میں پرویا ہے۔ اسلام نے اللہ کی بندگی(تقویٰ) اور اللہ کی کتاب کے تعلیم وتعلّم کی بنا پرانسانوں میں فضیلت کی درجہ بندی کی ہے۔ اسی طرح کفار ومشرکین کو قرآنِ کریم نے شرک وگناہ کی غلاظت کی بنا پر نجس قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو ان کی دوستی سے منع کرکے، اسلام کی بنا پر ایک