کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 6
کہ امریکہ نے پاکستان کو ترقی اور انفراسٹرکچر قائم کرنے کے لئے کتنی رقوم فراہم کیں ، لیکن حکومت کے نمائندگان ان کی تکمیل کی بجائے ہر بار نئے منصوبے اور نئے وعدے لے کر آجاتے ہیں ، ا س سے امریکہ میں پاکستان کے خلاف فضا بنتی اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی سبکی ہوتی ہے۔ راقم نے اس موقع پر یہ تبصرہ مناسب سمجھا کہ کلچرکی تعریف ہر طبقہ فکر کے لوگ اپنے پس منظر میں کرتے آئے ہیں اور ان کی کوشش رہی ہے کہ دین سے براہِ راست ٹکراؤ کی بجائے اسلام مخالف اُمور کی کلچرکے جھنڈے تلے حمایت حاصل کرکے اُسے گوارا بنایا جائے۔ کلچردرحقیقت ’’ایسی روزمرہ عادات واَطوار کا مجموعہ ہے جو کسی گروہ کے غالب حصے میں ظاہری طورپر نمایاں ہو۔‘‘اس کے تشکیلی عناصر میں مذہب غالب ترین حیثیت رکھتا ہے، جبکہ دیگر محرکات میں علاقائی عادات، تاریخی روایات اور ضابطہ ہائے اخلاق وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ مسلمانوں میں کلچر کی بحث کے دوران اس امر کی نشاندہی انتہائی ضروری ہے کہ اسلام کی رو سے ہر مسلمان پر دین کی حیثیت دیگر جملہ سماجی عناصر پر غالب تر ہے، البتہ ہر ایسی سماجی روایت جو اسلام سے نہ ٹکراتی ہو، اس کی اسلام میں گنجائش ہے۔ اسلام کلچر کی تشکیل کرتا ہے، نہ کہ خود کلچر کی قوت سے تشکیل پاتا ہے۔ اپنی بھرپور نظریاتی قوت اور مکمل محفوظ ہونے کی بنا پر اسلام تویہ تقاضا رکھتا ہے جبکہ دنیا کے دیگر مذاہب کے ہاں یہ صورتحال موجود نہیں ہے، جیسا کہ ہندومت میں کلچر ان کے مذہب پرغالب ہے۔ اور عیسائیت بھی کلچرل تقاضوں کے ساتھ مفاہمت کرچکی ہے۔ مزید برآں اسلام ایسی جدید سہولیات، بہتری اور ارتقا ( جنہیں تمدن، سولائزیشن یا حضارۃ کہنا چاہئے)کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے جن کی اسلام سے کوئی مخالفت نہ پائی جاتی ہو۔ ٭ مقرر موصوف کی کسی قوم کے بارے میں منفی جذبات نہ رکھنے کی دعوت کا مقصد پاکستانیوں کو امریکہ کے بارے میں نفرت آمیز جذبات پر نظرثانی کرنے کی کنایتاً تلقین کرنا تھا۔ اس نکتہ پر مولانا حافظ احمد شاکر نے بہ تفصیل ان وجوہات کی نشاندہی کی کہ مسلم اُمہ امریکہ کے بارے میں بلاوجہ منفی رویے اور نفرت کا شکار نہیں ہے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ پوری دنیا میں