کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 5
ایک ہی ہے، بلاغ ایک نبوی منصب ہے گویا ’ابلاغ کا مقصد‘ اللہ کے دیے ہوئے پیغام کو انسانیت تک پہنچانا ہی ہے۔ ٭ اس موقع پر تمام شرکا کے جوابات سننے کے بعد معاونِ کار، اظہر حسین صاحب نے دینی صحافت کو ’سٹریم لائن صحافت‘ سے دور یعنی عوام میں مقبول مرکزی صحافت سے خارج قرار دیا۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے شرکا نے اسے ’سیکولرزم کا ثمرہ‘ بتلایا جس کی رو سے دین ودنیا کے دو علیحدہ دائرے متعارف کرا کے عوام الناس کی دلچسپی کو دنیوی اُمور تک محدود کردیا گیا ہے۔ معاونِ کار کا سوال یہ تھا کہ اگر آپ میں سے کسی شخص کو مین سٹریم صحافت مثلاً روزنامہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں کالم لکھنے کا موقع ملے تو کیا اس کو سیکولر صحافت کا علمبردار ہونے کی بنا پر آپ قبول نہیں کریں گے؟ جس کا جواب راقم نے یوں دیاکہ ایسا دعوتی ضرورت کی بنا پر تو ہوسکتا ہے،لیکن جہاں تک مسلمانوں کے میڈیا کی بات ہے تواسے اُصولاً ایک ہی ہونا چاہئے جو دین ودنیا کی تفریق اور حد بندیوں سے بالاترہوکر، ہرمعاملے میں اسلام سے رہنمائی لے کرمسلمانوں تک پہنچائے، نہ کہ میڈیا کا بعض حصہ دین سے بالاتر ہوکر دیگر پس پردہ نظریات کے تحت مسلمانوں تک اپنے پیغامات پہنچائے اور اسلامی فکر ونظر سے بالاتر ہوکر عوامی مقبولیت ہی اس کا طرئہ امتیاز ہو۔ ٭ جناب اظہر حسین نے اپنے اگلے تربیتی سیشن میں ایک پہاڑ کی تصویر بناتے ہوئے نشاندہی کی کہ جزیرے کا سطحِ سمندر سے بلند چھوٹا سا حصہ دراصل ایک بڑی سرزمین کا معمولی اظہار ہوتا ہے جسے پہاڑ کی چوٹی سے مماثلت دی جاسکتی ہے، جو اوپر جاکر بہت چھوٹی ہوجاتی ہے۔ اس اظہار اور چوٹی کو اُنہوں نے کلچر سے تعبیرکیا جس کے پس پردہ متعدد محرکات وعناصر کارفرما ہوتے ہیں جو اس علاقے کی سرزمین سے پھوٹتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ کلچر عادات، ثقافت، تاریخ اور نظریات کا مجموعہ ہوتا ہے اور کلچر کا ہمیں معروضی تجزیہ کرتے رہنا چاہئے کہ آیا کسی حادثاتی یا اضافی وجہ کی بنا پر ہم بلاوجہ کسی قوم کے بارے میں منفی رویہ تو اختیار نہیں کررہے۔ اُنہوں نے امریکہ کے پاکستان کی اصلاح کے لئے کئے جانے والے اقدامات اور مخلصانہ مدد کو سراہتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے طرزِ فکر میں تبدیلی کی تلقین کی۔ اُنہوں نے کہا