کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 48
پھر اگر غامدی صاحب کی منطق درست مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر اسلامی حکومت منافق ہوتی ہے یا اُسے منافق ہونا چاہئے کہ وہ اپنے ملکی قوانین میں سے جس قانون کو چاہے، طاقت سے نافذ کردے اور جس قانون کو چاہے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دے اور اس کے لیے نہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہو اور نہ بندوں کے سامنے۔ غور کیجئے یہ کتنا بھیانک تصور ہے اسلامی ریاست کے بارے میں جو غامدی صاحب کی کھوپڑی سے برآمد ہوا ہے۔ حاصل کلام یہ کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بے اصل اور خلافِ اسلام ہے کہ ایک اسلامی ریاست نمازاور زکوٰۃ کے سوا کسی شرعی کام یا دین کے کسی ایجابی تقاضے کا حکم نہیں دے سکتی۔ البتہ اسلامی حکومت امر بالمعروف اور نہی عن المنکردونوں کے معاملے میں پہلے مرحلے میں تعلیم و تبلیغ اور ترغیب و تلقین سے کام لے گی لیکن جو لوگ اس سے اِصلاح پذیر نہ ہوں ، اُن کی اصلاح کے لیے قانون کی طاقت استعمال کرے گی اور جس طرح کسی منکر کو مٹانے کے لیے وہ وسیع انتظامی اور صوابدیدی اختیارات رکھتی ہے، اُسی طرح معروف کا حکم دینے میں بھی اُسے وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں ۔ اس معاملے میں وہ آج کے مہذب معاشروں کی حکومتوں کے مقابلے میں کم اختیارات کی حامل نہیں ہوتی۔