کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 47
گری یا سودی لین دین کا پیشہ کرے، اگرچہ یہ کسی شخص یا گروہ کے نزدیک جائز اور کارِثواب ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ ملک کی اجتماعی زندگی کے اخلاقی اور معاشی نظام کو بگاڑنے والی چیزیں ہیں ۔ اسی طرح غیر مسلم عورتوں کو اگرچہ پردے کی شرعی حدود کا قانوناً پابند نہیں کیا جائے گا لیکن بہرحال اُن کو اس بات کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ مغرب زدہ عورتوں کی طرح لوگوں کے اخلاق بگاڑتی پھریں ۔‘‘ (اسلامی ریاست: ص۲۱۹،۲۲۰، طبع ۲۰۰۶ء لاہور)
مولانا اصلاحی کے اس بیان سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ اُن کے نزدیک اسلامی حکومت مسلم خواتین کو نہ صرف قانونی طور پر شرعی پردے کا پابند کرسکتی ہے بلکہ وہ غیر مسلم عورتوں کو بھی ایک مناسب حد تک پردے کا پابند کرکے اُن کو کھلے عام بے پردگی سے روک سکتی ہے۔
11. جو چیز قانون ہے، اُس کا نفاذ کیوں نہ ہو؟
غامدی صاحب اپنی کتاب ’میزان‘ طبع سوم، مئی ۲۰۰۸ء میں ’قانونِ عبادات‘ کے عنوان کے تحت روزے،قربانی سمیت تمام اسلامی عبادات کو ’قانون‘ قرار دیتے ہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ
1. ’’روزے کا یہ قانون مسلمانوں کے اِجماع اور تواتر عملی سے ثابت ہے۔‘‘ (ص:۳۶۹)
2.’’قربانی کا جو قانون مسلمانوں کے اجماع اور تواتر عملی سے ہم تک پہنچا ہے ، وہ یہ ہے…‘‘ (ص:۴۰۵)
مزید ’’قربانی کا قانون یہی ہے‘‘ (ص:۴۰۶)
3. ’’قانونِ عبادت میں نماز، زکوٰۃ، قربانی، عمرہ، حج، روزہ اور اعتکاف شامل ہیں ۔‘‘ (ص:۲۶۳ تا۴۰۵)
4.’’زکوٰۃ کا قانون مسلمانوں کے اجماع اور تواتر عملی سے ہم تک پہنچا ہے۔‘‘ (ص:۳۵۰)
اب سوال یہ ہے کہ جب روزہ قانون ہے، حج قانون ہے اور قربانی قانون ہے تو ایک اسلامی حکومت اپنے ان ’قوانین‘ کو نافذ کیوں نہیں کرسکتی۔ سب جانتے ہیں کہ قانون چیز ہی ایسی ہوتی ہے جسے ہرریاست طاقت کے زور سے نافذ کرتی ہے۔ پھر کیا اسلامی ریاست اپاہج اور اتنی بے بس ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے احکام و قوانین کی تنفیذ نہیں کرسکتی اور اس کے لیے طاقت استعمال نہیں کرسکتی۔