کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 46
اس مقام پر کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ یہ سرکاری عہدہ قبول کرنے کا معاملہ کوئی دینی کام نہیں تھا یا یہ ’دین کا کوئی ایجابی تقاضا‘ نہ تھا، کیونکہ اوّل تو اسلام میں دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں ۔ ع جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
دوسرے یہ کہ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ امانتیں اُن کے حق داروں کو پہنچائے اور اسلام میں سرکاری عہدہ و منصب ایک امانت ہے اور یہ امانت صرف اس کے اہل اور باصلاحیت لوگوں ہی کے سپرد کی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
﴿اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوْا الاَمٰنٰتِ اِلیٰ اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰهَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا﴾
’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُن کے حق داروں کو پہنچا دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو ۔ اللہ تمہیں کتنی اچھی نصیحت کرتا ہے ۔ بے شک اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ (النسائ:۵۸)
10.مسلمان عورت کا شرعی پردہ
مسلمان عورت کا شرعی پردہ بھی دین کا ایک ایجابی تقاضا اور شرعی امر ہے۔ اسلامی ریاست مسلمان خواتین کو شرعی پردے کا پابند کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں تعلیم و تلقین اور نصیحت و ترغیب سے کام لے گی۔اگر اسی سے اُس کا مقصد پورا ہوجائے گا تو وہ قانون کی طاقت استعمال نہیں کرے گی۔ لیکن وعظ و نصیحت کے باوجود جو مسلمان خواتین شرعی پردے کی پابندی نہیں کریں گی، اُن کے خلاف قانون کی طاقت استعمال کی جائے گی۔
اگرچہ غامدی صاحب سرے سے مسلمان عورت کے لیے شرعی پردے ہی کو نہیں مانتے اور اسے محض رسم و رواج قرار دیتے ہیں مگر ساری اُمت کی طرح اُن کے اپنے ’استاد امام‘ اسے شریعت کا ایک ضروری حکم مانتے ہیں اور اس بارے میں اُن کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ
’’جس طرح دنیا کی کوئی حکومت بھی اپنی حدود کے اندر کسی ایسی چیز کو روا نہیں کرسکتی جو معاشرے کی اجتماعی زندگی کو ریاست کے بنیادی اُصولوں کے خلاف متاثر کرنے والی ہو، اسی طرح اسلامی حکومت اپنی حدود کے اندر کسی بھی اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ قحبہ