کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 45
اسلامی ریاست بھی اپنے مسلمان شہریوں کو وعظ و نصیحت کے انداز میں لوگوں کو دینی تعلیم کے حصول کے لیے ترغیب دیتی ہے، لیکن جہاں ضرورت ہو، وہاں وہ دین کی بنیادی تعلیم کو جبری طو رپر بھی نافذ کرسکتی ہے۔ خلافت ِراشدہ سے اس کا ثبوت بھی مل جاتا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’الفاروق‘ میں امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’خانہ بدوش بدؤوں کے لیے قرآنِ مجید کی تعلیم جبری طو رپر قائم کی، چنانچہ ایک شخص کو جس کا نام ابوسفیان تھا، چند آدمیوں کے ساتھ مامور کیا کہ قبائل میں پھر پھر کر ہر شخص کا امتحان لے اور جس کو قرآنِ مجید کا کوئی حصہ یاد نہ ہو اُس کو سزا دے۔‘‘ (الفاروق: ص۲۴۸، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ، لاہور بحوالہ ’اغانی‘ ج ۱۶/ ص ۱۵۸، نیز الاصابہ فی احوال الصحابہ میں بھی یہ واقعہ منقول ہے) اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست دین کی جبری تعلیم قانون بھی نافذ کرسکتی ہے۔ اس کا سبب ظاہر ہے کہ دین کا علم حاصل کرنا دین کا ایک ایجابی تقاضا ہے، ایک شرعی امر ہے اور ایک معروف کام ہے اور یہ اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں ہے کہ وہ اپنے مسلمان شہریوں کو معروف کا حکم دے اور اس کی اُن سے پابندی کرائے۔ 9. سرکاری منصب اور اسلامی ریاست اسلامی ریاست کسی ایسے فرد کو سرکاری عہدہ و منصب قبول کرنے کا حکم بھی دے سکتی ہے جو اُس کے نزدیک اس کا اہل ہو، چنانچہ مصنف عبدالرزاق ج۱۱/ ص۳۴۸ میں ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے مشہور صحابی سعید بن عامر جمحی ؓ کو شام کے علاقے حمص کا والی(گورنر) بنانا چاہا تو اُنہوں نے انکار کردیا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ نہیں ہوسکتا کہ تم لوگ خلافت کی ساری ذمہ داری کا بوجھ میری گردن پر ڈال دو اور خود اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھ جاؤ۔ یہ جواب سن کر سعید بن عامر ؓ نے وہ عہدہ قبول کرلیا اور اُن کو حمص (شام) کا گورنر بنایا گیا جہاں پر کئی برس تک اس عہدے پر فائز رہے۔ (بحوالہ فقہ عمر: ص۱۱۸،نیز یہ واقعہ صور من حیاۃ الصحابۃ از ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا، ص۱۰ پر بھی موجود ہے۔ اس کتاب کا اُردو ترجمہ’ حیاتِ صحابہ کے درخشاں پہلو‘ کے نام سے موجود ہے)