کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 44
غامدی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ جس طرح دنیا کی کوئی حکومت اپنے ملک کے دفاع سے غفلت نہیں برت سکتی اور ہنگامی صورتِ حال میں جبری بھرتی کا قانون نافذ کرسکتی ہے۔ اسی طرح اسلامی ریاست بھی اپنے ملک کے دفاع، جسے اسلامی اصطلاح میں جہاد و قتال کہتے ہیں ،سے قطعاً غافل نہیں رہ سکتی۔ اسلام میں جہاد و قتال دین کا ایجابی تقاضا بھی ہے اور فریضہ بھی۔ اس کے لیے اسلامی ریاست اپنی تعلیم گاہوں میں نوجوانوں کے لیے جہاد و قتال کی خاطر فوجی تربیت کا حصول لازمی قرار دے سکتی ہے۔ غیر معمولی اور ہنگامی حالات میں جبری بھرتی کا قانون نافذ کرسکتی ہے اور جب وہ نفیر عام (عام لام بندی) کا حکم جاری کردے تو اس کی اطاعت ہر صحت مند جوان مسلمان مرد پر لازم ہوجاتی ہے۔ پھر جو لوگ شرعی عذر کے بغیر ایسے موقع پر جہاد و قتال میں شرکت نہ کریں ، اُن کو وہ مناسب سزا بھی دے سکتی ہے۔ قرآن مجید کی سورہ التوبہ میں اُن تین بدری صحابہ کرامؓ کا واقعہ موجود ہے جو غزوۂ تبوک میں شرکت نہیں کرسکے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُن تینوں صحابہ کو معاشرتی مقاطعہ(Social Boycott) کی سزا دی تھی اور اُن کی منکوحہ بیویوں کو بھی اُن سے الگ رہنے کا حکم جاری فرمایا تھا۔ یہ واقعہ صحیح بخاری کتاب التفسیر رقم:۴۶۷۷ میں اور صحیح مسلم: کتاب التوبہ رقم: ۷۰۱۶ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ غامدی صاحب سرے سے جہاد و قتال کے حکم ہی کے منکر ہیں اور اُن کے نزدیک یہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ لیکن کیا اُن کے نہ ماننے سے شریعت کا کوئی حکم بدل سکتا ہے؟ع حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی 8. جبری تعلیم اور اسلامی ریاست آج کی اکثر ’مہذب ریاستوں ‘ میں جبری تعلیم کا قانون موجود ہے جس کی خلاف ورزی پر والدین کے لیے سزا بھی رکھی گئی ہے اور کوئی معقول شخص اس قانون کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ اسلام میں بھی حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔ حدیث میں ہے کہ ((طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم)) (ابن ماجہ، رقم :۲۲۴) ’’(دین کا) علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘