کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 42
5. روزے کا حکم اور اسلامی ریاست روزہ رکھنا دین کا ایک ایجابی تقاضا اور ایک شرعی امر ہے اور اسلامی حکومت جو ہر معروف کا حکم دے سکتی ہے، روزے کے معروف کا بھی حکم دے گی۔ وہ پہلے نصیحت اور ترغیب کے انداز میں مسلمانوں کو اس معروف کی تلقین کرے گی اور اگر لوگ اُس کی اس اخلاقی تبلیغ ہی سے روزے کی پابندی کرلیں گے تو وہ قانون کو حرکت میں نہیں لائے گی۔ لیکن جو لوگ اُس کی اس نصیحت اور تلقین پر عمل نہیں کریں گے اور رمضان المبارک میں سرعام روزہ خوری کریں گے تو اسلامی حکومت اُن کو قانون کی طاقت سے روزہ رکھنے پر مجبور کرے گی اور بعض حالات میں مناسب سزا بھی دے گی۔ غامدی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس بارے میں خود اُن کے ’استاد امام‘ امین احسن اصلاحی کا موقف بھی اُن کے خلاف ہے اور اُن کا موقف یہ ہے کہ خلیفۂ وقت روزے کے شرعی حکم سمیت اللہ تعالیٰ کے تمام منصوص احکام و مسائل کو طاقت کے زور سے نافذ کرسکتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب ’اسلامی ریاست‘ میں لکھتے ہیں : ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب کے جو قبائل مرتد ہوگئے تھے، ان میں ایک گروہ اُن لوگوں کا بھی تھا جو کہتے تھے کہ ہم نماز تو پڑھیں گے لیکن زکوٰۃ نہیں ادا کریں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اُن کو بزورِ شمشیر ادائیگی زکوٰۃ پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ معاملہ اُن کے نزدیک شریعت کے اُن واضح اور منصوص مسائل میں سے تھا جن کے بارے میں دو رائیں نہیں ہوسکتی تھیں ۔ اس وجہ سے اس میں اُنہوں نے شوریٰ سے مشورہ حاصل کرنے کا اپنے کو پابند نہیں سمجھا بلکہ روزہ، نماز، حدود، تعزیرات اور اس قسم کے دوسرے مسائل کی طرح اس میں بحیثیت خلیفہ کے اپنی ذمہ داری خدا کے قانون کی تنفیذ سمجھی۔ چنانچہ اُنہوں نے اپنے اس نقطۂ نظر کے مطابق یہ فیصلہ کرلیا کہ اگر یہ اسلامی بیت المال کو زکوٰۃ ادا نہ کریں تو ان کو طاقت کے زور سے اطاعت پر مجبو رکیا جائے۔‘‘ (اسلامی ریاست: ص۴۰، طبع ۲۰۰۶ء دارالتذکیر، لاہور) اس سے معلوم ہوا کہ مولانا اصلاحی کا موقف یہ ہے کہ اسلامی حکومت مسلمانوں کو نہ صرف روزہ رکھنے کا حکم دے سکتی ہے بلکہ وہ شریعت کے تمام واضح اور منصوص اوامر و مسائل، جن میں