کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 41
﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنُ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾(آلِ عمران:۱۰۴) ’’اور چاہئے کہ تم میں ایک گروہ ایسا ہو جو نیکی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ یاد رہے کہ ان دونوں آیات کا ترجمہ ہم نے دانستہ طور پر غامدی صاحب کے ’اُستاد امام ‘ مولانا اصلاحی کی تفسیر ’تدبر قرآن‘ سے لیا ہے اور خود غامدی صاحب نے بھی اپنی کتاب ’میزان‘ میں ان دونوں آیات سے اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں ثابت کی ہیں ۔ (ص:۴۸۹،۴۹۰) مذکورہ آیات کو جو شخص بھی کھلے ذہن کے ساتھ پڑھے گا اُسے معلوم ہوجائے گا کہ اسلامی حکومت ہر ’معروف‘ کا حکم دینے اور ہر ’منکر‘ سے روکنے کے لیے قانون بنانے کا اختیار رکھتی ہے۔ قرآن مجید میں یہ دونوں چیزیں معروف اور منکر ’عام‘ استعمال ہوئے ہیں اور ان کو ’خاص‘ نہیں کیا جاسکتا۔ یوں نہیں کہا جاسکتا کہ اسلامی حکومت بعض معروف کا حکم دے سکتی ہے اور بعض کا نہیں دے سکتی، کیونکہ خود قرآن نے اس کی کوئی تحدید یا تخصیص نہیں کی۔ البتہ قاعدہ یہی ہے کہ اسلامی حکومت نماز اورزکوٰۃ سمیت ہر ’معروف‘ کام کا حکم پہلے اخلاقی طور پر تعلیم و تبلیغ اور ترغیب و تلقین کے ذریعے دے گی۔ اس کے نتیجے میں اگر لوگ خوشی سے اور رضاکارانہ طور پر معروف کی پابندی کرلیں گے تو قانون ان سے کوئی تعرض نہیں کرے گا، لیکن اگر اس کے باوجودجو لوگ ’معروف‘ پر عمل نہیں کریں گے تو اسلامی حکومت قانون کی طاقت سے اُن کو ’معروف‘ کا پابند کرے گی،کیونکہ قرآن کی رُو سے جس طرح جرائم کے خاتمے اور منکرات کے سد ِباب کے لیے اسلامی ریاست وسیع اختیارات رکھتی ہے، بالکل اسی طرح ’معروف‘ کی پابندی کرانے کے لیے بھی اُسے ویسے ہی وسیع اختیارات حاصل ہیں ۔ یاد رکھئے شریعت کے تمام اَوامر و نواہی کے بارے میں اسلامی ریاست کا یہی دستور العمل ہے،کیونکہ وہ محض واعظ اور ذاکر نہیں ہوتی بلکہ اور دنیا کی ہر حکومت کی طرح صاحب ِاختیار و اقتدار حکمران ہوتی ہے۔