کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 40
بمعصیۃ فإذا أمر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ))
’’ایک مسلمان پر اپنے امیر کا حکم سننا اور ماننا فرض ہے خواہ اس کا حکم اسے پسند ہو یا ناپسند ، جب تک کہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ اور جب معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر کوئی سمع و طاعت نہیں ۔‘‘ (صحیح بخاری: ۷۱۴۴، صحیح مسلم:۴۷۶۳)
ایک اور حدیث میں ہے کہ
((إنما الطاعۃ في المعروف)) (صحیح بخاری:۷۱۴۵)
’’اطاعت صرف معروف (کے کاموں ) میں ہے۔‘‘
3. حضرت ابوبکرؓ کا پہلا خطبۂ خلافت
مسلمانوں کے خلیفۂ اوّل سیدنا ابوبکر ؓ نے خلیفہ ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں یہ اعلان فرما دیا تھا کہ
’’أطیعوني ما أطعت اللّٰه وَرسولہ،فإذا عصیت اللّٰه ورسولہ فلا طاعۃ لي علیکم‘‘ (کنزالعمال: ج۵/ حدیث ۲۲۸۲)
’’میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا رہوں اور جب میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پرنہیں ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں حکمرانوں کی اطاعت صرف معروف اور جائز کاموں میں ہے، منکر اور معصیت کے کاموں میں نہیں ہے۔
4. اسلامی ریاست کے فرائض اور اختیارات
قرآنِ حکیم میں اسلامی حکومت کے درج ذیل فرائض بیان ہوئے ہیں :
﴿اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِیْ الاَرْضِ اَقَامُوْا الصَّلوٰۃَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَللّٰهِ عَاقِبَۃُ الأمُوْرِ﴾ (الحج:۴۱)
’’یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز کا اہتمام کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور انجام کار کا معاملہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ