کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 4
مختلف دعووں اور مواقف کی گہرائی میں اُترنے اور ان پر بے لاگ تبصرہ کرنے کا موقع بھی ملا۔ بعض لیکچرز پر راقم کی خاموشی کے موقع پر مخلص احباب کا یہ اصرار بھی رہا کہ آپ اپنے تبصرے سے ہمیں ضرور مستفید فرمائیے تاکہ تصویر کے دوسرے رخ سے بھی ہمیں آگاہی حاصل ہوسکے۔ پروگرام میں بعض اہم بیانات پر جو تبصرے یا مؤاخذے کئے گئے، ان میں سے بعض حسب ِذیل ہیں ۔ ان موقعوں پر مرزا محمد الیاس، حافظ احمد شاکر، مولانا محمد ازہر، مرزا ایوب بیگ اور راقم کا موقف عموماً ایک دوسرے کی موافقت و تائید میں ہوا کرتا۔ ٭ ورکشاپ کے پہلے سیشن میں ہر شریک ِمجلس سے چار سوال پوچھے گئے تاکہ شرکا کے رجحانات اور ان کی تجزیاتی صلاحیت کا اِدراک کیا جاسکے۔ تمام شرکا کو چار گروپ میں تقسیم کرکے ان میں سے ایک فرد کو اپنے ساتھیوں کے خیالات کی مشترکہ نمائندگی کا بھی موقعہ دیاگیا۔ راقم نے اپنے سوالات کے مختصر جوابات یوں دیے جبکہ دیگر افراد کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کی طرف سے بعض مزید نکات کا اضافہ بھی کیا…: ٭ سوال: میں میڈیا میں کیوں آیا؟ جواب: میرا میڈیا میں آنے کا مقصد دین کے پیغام (رسالت) کو غلط مفاہیم اور آلائشوں سے پاک کرنا، اور خالص شریعت ِاسلامیہ کی تبلیغ و ترجمانی کرنا ہے۔ مزید برآں اُمت ِ اسلامیہ کے حالات کا اسلامی نقطہ نظر سے تجزیہ اور اس میں اصلاحِ احوال کی کوشش کرنا۔ ٭ سوال: میڈیا میں آپ کی دلچسپی کی چیزیں کیا ہیں ؟ جواب: اپنے مقصدمیں ہم تک کہاں کامیاب ہیں ، اور اس سے استفادہ کا دائرہ کس قدر وسیع ہے۔ ٭ سوال: میڈیا کے بڑے چیلنج کیا ہیں ؟ جواب: قارئین کی دینی رہنمائی کے لئے بہترین اورمعیاری مواد پیش کرنا اور امت کے احوال کا حقیقت پر مبنی تجزیہ کرنا۔ ٭ سوال: عام اور دینی صحافت میں بنیادی فرق؟ جواب: دینی صحافت اللہ کی دعوت کو پھیلانے کے لئے ہوتی ہے جبکہ عام صحافت لوگوں کے باخبررہنے کی جذبہ کی عکاس اور اسیر ہوتی ہے۔ اِبلاغ اور تبلیغ دونوں الفاظ کا مصدر ومادہ