کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 38
نماز اور زکاۃ کے علاوہ امر بالمعروف، نہی عن المنکر دونوں کو حکومت کی بھی ذمہ داری قرار دیا ہے، لیکن بعض متجددین معروف کو حکومت کی ذمہ داری سے نکالنا چاہتے ہیں ‘ تا کہ شریعت بھی محض قانون بن کر رہ جائے۔ زیر نظر مقالہ اسی قسم کے مغالطوں کی نشاندہی کر رہا ہے جو ہدیۂ قارئین ہے۔
(محدث)
غامدی صاحب کی تجدد پسندی اور اسلام سے جہالت کا حال یہ ہے کہ وہ اسلامی ریاست کو اُس کے بنیادی فرائض اور ذمہ داریوں سے روکتے ہیں اور اُسے اُن اختیارات سے بھی محروم دیکھنا چاہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اُس کو عطا فرمائے ہیں ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ریاست اپنے مسلمان شہریوں کو کسی جرم کے ارتکاب سے روک سکتی اور اُس پر سزا تو دے سکتی ہے لیکن دین کے ایجابی تقاضوں میں سے نماز اور زکوٰۃ کے علاوہ کسی چیز کو بھی قانون کی طاقت سے لوگوں پرنافذ نہیں کرسکتی۔ وہ مثال کے طور پر، اُنہیں روزہ رکھنے کا حکم نہیں دے سکتی۔ اُن میں سے کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم ہوجانے کے باوجود کہ وہ صاحب ِ استطاعت ہے، اُسے حج پر جانے کے لیے مجبور نہیں کرسکتی۔ جہاد و قتال کے لیے جبری بھرتی کا کوئی قانون نافذ نہیں کرسکتی۔ مختصر یہ کہ جرائم کے معاملے میں اُس کا دائرۂ اختیار آخری حد تک وسیع ہے، لیکن شریعت کے اَوامر میں سے ان دو’نماز اور زکوٰۃ‘کے سوا باقی سب معاملات دائرۂ اختیار میں نہیں ہے۔‘‘ (میزان: ص۴۹۲،۴۹۳، طبع سوم، مئی ۲۰۰۸ء ، لاہور)
اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ اسلامی ریاست مسلمانوں کو نماز اور زکوٰۃ کے سوا، دین کے کسی اور ایجابی تقاضے یا کسی شرعی امر کا حکم نہیں دے سکتی۔ لہٰذا وہ:
٭ مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم نہیں دے سکتی۔
٭ اُن لوگوں کو جن پر حج فرض ہو، حج پر جانے کے لیے مجبور نہیں کرسکتی۔
٭ جہاد و قتال کے لیے جبری بھرتی کاکوئی قانون نافذ نہیں کرسکتی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ غلط اور غیر اسلامی ہے۔یہ اُن کی جہالت، تجدد پسندی اور اسلام دشمنی کا شاخسانہ ہے اوراُن کے اپنے ’استاد امام‘ کے اس بارے میں موقف کے بھی خلاف ہے۔
اب ہم اُن کے اس دعوے کا علمی جائزہ لیں گے: