کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 37
تحقیق و تنقید بسلسلۂ غامدیت محمد رفیق چودھری
اِسلامی ریاست کے اختیارات کامسئلہ
اللہ تعالیٰ کی وحی کی روشنی میں نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم احکامِ اسلامی کی تشکیل وتعبیر کرتے رہے،جنہیں کتاب وسنت بھی کہا جاتا ہے۔یہی شریعت اور اس کا نفاذ ہے جبکہ جدید سیاسیات میں قانون سازی مقننہ،اس کی تشریح وتعبیر عدلیہ اور اس کا نفاذ حکومت کرتی ہے۔ ’نفاذ‘ کا لفظ ذو معنی ہے۔ چنانچہ قانون کا جاری ہونا اور اس کی عملداری دونوں کو ’نفاذ‘کہتے ہیں ۔شریعت کی عرف میں ’کتابت‘ کا مفہوم نفاذ کے قریب ہے۔ جس کا تفصیلی نقشہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم مہیا کرتی ہے۔ گویا اُمت کتاب اللہ کے علاوہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی پابند ہوتی ہے جس کی حیثیت تا قیامت اَبدی ہے، البتہ اگر نبی حکمران بھی ہو جس طرح بنی اسرائیل میں پہلی دفعہ سیدنا داؤد علیہ السلام میں شریعت اور حکومت جمع ہو گئی تھیں ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انفرادی اور اجتماعی طور پر اجتہاد وتدبیر بھی کرتے رہے جسے سیرت بھی کہتے ہیں ۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شارع کے علاوہ حکمران بھی تھے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام کی رحلت سے خلافت کا دور شروع ہوا جس کی اُمت مسلمہ نگران ہے۔ نفاذ کی تکمیل تو محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کر چکے،اب اُمت مسلمہ کا کام اس کی نگرانی اور عملداری ہے۔ اسی سلسلہ میں انفرادی سطح پر ہر مسلمان شریعت کا مکلف ہے تو اجتماعی سطح پر ملت اسلامیہ اس کی حفاظت اور نگرانی کی ذمہ دار ہے جس میں نماز، روزہ کے علاوہ تمام اسلامی احکام آجاتے ہیں ، کیونکہ اسلام جامع دین وشریعت ہے جس میں عقیدہ‘ عبادات اور خاندانی رسوم ورواج کے علاوہ تہذیب ومعاشرت، معیشت واقتصاد اور سیاست وحکومت سبھی شامل ہیں ۔اسلامی حکومت کی جہاں یہ ذمہ داری ہے کہ دین کی عملداری میں اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ وغیرہ کی عملداری کا دھیان رکھے، وہاں یہ بھی ذمہ داری ہے کہ زندگی کے دوسرے اجتماعی میدانوں میں شریعت کی ہر خیر وبرکت کو فروغ دینے اور شر وظلم کو مٹانے کی سعی بجا لائے جس کے لیے شریعت کی اصطلاح امر بالمعروف، نہی عن المنکر ہے۔
امر بالمعروف، نہی عن المنکر کا تصور قانون سے زیادہ وسیع اور بلند تر ہے جس میں دعوت وتبلیغ کے علاوہ خیر وعدل کی عملداری اور شر وظلم کا صفایا دونوں شامل ہیں ۔
چونکہ قانون کا مزاج زیادہ تر منفی ہوتا ہے اس لیے اصل قانون وہ ہے جس کی سزا مقرر ہو ورنہ توجیہی قوانین Directive Laws زیادہ تر مقننہ کی خواہشات (Will) کا اظہار ہوتے ہیں ‘ اسی بناء پر بعض دانشوروں کو یہ مغالطہ ہوا ہے کہ شریعت کے مثبت احکام‘ ریاست وحکومت کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے