کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 34
ناکامی ہوئی،لہٰذاآپ نے بزورِ طاقت بیعت لینے کا ارادہ کیا اور اسی ہزرا کا لشکر لے کر کوفہ سیشام چلے اور نخلیہ کے مقام پر مقیم ہو گئے۔امیر معاویہ کو اس کا علم ہوا تو ساٹھ ہزار شامیوں کے ساتھ مقابلے کے لیے نکلے اور صفین کے میدان میں دریائے فرات کے ساحل پر ڈیرے لگا لیے، دونوں فوجوں میں امت کے خیر خواہ، علما،صلحا اور حفاظِ قرآن کی کافی تعداد تھی۔انہوں نے مصالحت کی کوشش کی۔اس وجہ سے تین ماہ تک لڑائی رکی رہی اور طرفین کے سفیروں کی آمدورفت جاری رہی، لیکن مصالحت نہ ہو سکی۔حضرت امیر معاویہؓ اس شرط پر بیعت کرنے کے لیے تیار تھے کہ قاتلین عثمان کو ان کے حوالے کر دیا جائے،لیکن یہ معاملہ بڑا پیچیدہ تھا،کیونکہ اس مطالبہ پر حضرت علیؓ کی فوج سے بیس ہزار آدمیوں نے آگے بڑھ کر بلند آواز سے کہا ہم سب قاتلینِ عثمان ہیں ،اسی طرح مصالحت کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور جنگ شروع ہو گئی جس کا سلسلہ کئی مہینے تک جاری رہا،شامی لشکر نے عمرو بن عاص کے مشورے سے ایک عجیب کام کیا۔صبح جب دونوں فوجیں مقابلے کے لیے نکلیں تو شامی نیزوں پر قرآن کریم اٹھائے ہوئے نکلے اور بلند آوز سے کہنے لگے۔ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ہے آؤ مل کر اس کا فیصلہ قبول کر لیں ۔یہ تجویز کارگر ثابت ہوئی جس پر عراقیوں نے لڑائی سے ہاتھ روک لیے۔حضرت علی ؓنے بہت سمجھایا کہ یہ ایک چال ہے مگر وہ نہ مانے اور کہا کہ اگر آپ نے قرآن کو حکم تسلیم نہ کیا تو ہم آپ سے بھی جنگ کریں گے۔مجبورا حضرت علیؓ کو لڑائی بند کرنی پڑی۔
اب تجویز یہ ٹھہری کہ طرفین سے ایک ایک نمائندہ بطورِ ثالث مقرر کیا جائے جو قرآن کریم کی رو سے اس جھگڑے کا فیصلہ کریں اور تا فیصلہ جنگ بند رہے گی اور یہ فیصلہ فریقین کے لیے واجب العمل ہو گا۔حضرت امیر معاویہ ؓ کی طرف سے عمرو بن عاص اور حضرت علیؓ کی طرف سے ابو موسی اشعری ثالث مقرر ہوئے۔اس موقع پر ایک گروہ نے حضرت علیؓ کی مخالفت شروع کر دی اور یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے حضرت علیؓ کو بڑے اصرار کے ساتھ ثالثی کے لیے آمادہ کیا تھا جب کہ حضرت علیؓ شروع میں ثالثی کے حق میں نہ تھے ،لیکن ان لوگوں کے زور دینے پر