کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 31
وجہ تسمیہ: روافض کی وجہ تسمیہ کے بارے میں درج ذیل تین اَقوال ہیں :
٭ پہلا قول:
حضرت ابوبکر وعمر کی خلافت کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے اُنہیں روافض(انکار کرنے والے) کہا جاتا ہے۔ لرفضہم خلافۃ الشیخین
٭ دوسرا قول:
دین چھوڑ دینے کی وجہ سے یہ روافض کہلاتے ہیں ۔لرفضہم الدین یعنی یہ بظاہر تو دین کے دعوے دار ہیں ، لیکن درحقیقت حقیقی اسلام سے بہت دور ہیں ۔روافض نے خود ساختہ دین بنایا ہوا ہے اور توحید کو نظر انداز کر کے یہ شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔
٭ تیسرا قول:
زید رحمہ اللہ بن علی رحمہ اللہ بن حسینؓ بن علیؓ دوسری صدی ہجری میں بنواُمیہ کے خلاف لڑنے کے لیے نکلے تو اُنہوں نے کہا اگر آپ شیخین کو گالیاں دیں گے اور ان سے براء ت کا اظہار کریں گے تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ معاذ اللہ میں ایسانہیں کرسکتا تویہ الگ ہوگئے تو زیدنے فرمایا: أرفضتموني
’’کیا تم نے میرا ساتھ چھوڑ دیا‘‘ اس سے انہیں ’رافضہ‘ کہا گیا۔
یمن کا رہنے والا عبداللہ بن سبا یہودی دور عمرؓ میں تو درّئہ فاروقی سے ڈرتا تھا، لیکن دورِ عثمانیؓ میں اُن کی نرمی کی وجہ سے اس کو موقع مل گیا۔ یمن سے حجاز آکر ا س نے اسلام کادعویٰ کردیا اور غلط عقائد پھیلانے شروع کردیئے۔اس نے یہ نظریات پھیلا دیئے کہ
1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد حضرت علیؓ کی خلافت کی وصیت کی تھی۔
2. ابن ملجم نے حضرت علیؓ کو قتل نہیں کیا تھا بلکہ (معاذ اللہ)شیطان کوقتل کیا تھا جو علیؓ کی صورت میں آیا تھا۔
3. علیؓ میں اُلوہیت کا جز پایا جاتاہے لہٰذا وہ قیامت کے نزدیک لوٹ کر آئیں گے اور اپنے دشمنوں سے انتقام لیں گے۔
گویا اس طرح ابن سبا نے شیعوں کو گمراہ کیا جیسے پولس نے عیسائیوں کو گمراہ کیااس نے کہا: