کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 30
4. انفاذ الوعید:وعیدکا نافذ کرنااللہ پر لازمی ہے یعنی کسی مرتکب ِکبیرہ کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرسکتا،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ ہرمجرم کو عذاب ہوگا۔اگر اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہیں کرے گا تو وعدہ خلافی لازم آئے گی۔
دو اعتبار سے معتزلہ کایہ نظریہ بھی غلط ہے:
1. اس وعید اورعذاب کو اللہ تعالیٰ نے عدمِ مغفرت کے ساتھ معلق کیاہے کہ اگر معاف نہیں کروں گا تو پھر عذاب دوں گا، جیسا کہ گناہ سے توبہ کرنے والے کو وعید شامل نہیں ہے۔ لہٰذااللہ کے وعدہ کی مخالفت لازم نہیں آتی۔
2. نیز وعدہ اور وعید میں فرق ہے۔ وعدہ کی مخالفت تو مذموم ہے، لیکن وعید کی مخالفت توقابل تعریف اور اکرام و اِحسان میں داخل ہے۔اس کی دلیل یہ شعر ہے:
وإني إن أوعدتہ أو وعدتہ
لمخلف إیعادي و منجز موعدي
’’میں اگر کسی کو وعید سناؤں یا اس سے وعدہ کروں تو وعید کو چھوڑ دیتا ہوں ،لیکن اپنے وعدہ کو پورا کرتا ہوں ۔‘‘
یعنی انعام کا اعلان وعدہ ہوتاہے اور سزا کا اعلان وعیدکہلاتا ہے اور وعدہ کو پورا کرنا ضروری ہے جب کہ وعید کو چھوڑنا ممدوح ہے۔
5. الأمربالمعروف والنہي عن المنکر: اس خودساختہ اصول سے ان کے نزدیک مراد یہ ہے کہ ظالم حکمران کے خلاف تلواریں لے کر نکلنا اور اس سے لڑناضروری ہے۔
معتزلہ کے پھیلاؤ کے اَسباب
1. حکمرانوں سے تعلقات 2.چرب زبانی
3.فصاحت و بلاغت 4. باہم شدتِ تعاون
2.رافضہ
تشیع میں غلو کرنے والوں کو’روافض‘ کہا جاتا ہے۔