کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 29
دے تو کیا یہ فیصلہ اچھا ہوگا یا برا؟
ابواسحق: جس چیز کو اللہ تعالیٰ تجھ سے روکتا ہے اگر تو وہ تیری ملکیت میں ہے تو یہ فیصلہ برا ہو،لیکن اگر وہ چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہے اورواقعی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے تو اللہ جوچاہے کرے (وہ صاحب اختیار ہے)۔ اس پر عبد الجبار لاجواب ہو گیا۔
معتزلہ کو یہ مغالطہ اس بنا پر لاحق ہوا کہ اُنہوں نے اِرادہ کونیہ قدریہ اور اِرادہ دینیہ شرعیہ کو ایک ہی کردیا۔حالانکہ اللہ تعالیٰ اِرادہ کونیہ قدریہ کے اعتبار سے شر کے بھی خالق ہیں اور اِرادہ شرعیہ کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ شر کو پسند نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ اِرادہ دینیہ شرعیہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلوب و مقصود ہے جبکہ ارادہ کونیہ قدریہ میں اللہ کی پسند و رضا کا ہونا ضروری نہیں ۔
گویامعتزلہ نے اِرادئہ کونیہ کا انکار کردیا اورصرف شرعیہ کو مانا جب کہ صوفیا نے اِرادہ دینیہ شرعیہ کو لغو کردیااور اِرادہ کونیہ قدریہ کے تحت ہر چیز کو اللہ کا محبوب بنادیا۔
ارادہ دینیہ شرعیہ اللہ تعالیٰ کی محبوب اور پسندیدہ چیزوں کو شامل ہے جب کہ ارادہ کونیہ قدریہ خیر وشر ہر چیز کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقدر کی ہے۔بعض چیزوں میں اللہ کے دونوں ارادے جمع ہوجاتے ہیں جیسے مؤمن کا ایمان لانا
اور بعض چیزوں میں صرف ارادہ کونیہ قدریہ آتاہے جیسے کافر کا کفر کرنا
بعض چیزوں میں اِرادہ شرعیہ آتاہے جیسے کافر کا ایمان لے آنا۔
3. المنزلۃ بین المنزلتین: معتزلہ کے اس اُصول کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کبیرہ گناہ کرتاہے تو وہ ایمان سے نکل جاتاہے، لیکن کفرمیں داخل نہیں ہوتا بلکہ ایمان و کفر کے درمیان ہوتا ہے۔
خوارج بھی یہی کہتے ہیں کہ مرتکب ِکبیرہ ایمان سے نکل جاتاہے، لیکن ان میں اور معتزلہ میں فرق یہ ہے کہ ان کے نزدیک وہ کفر میں داخل ہوجاتاہے، جبکہ معتزلہ اس کو کفر میں داخل نہیں سمجھتے۔لیکن نتیجہ اور آخرت کے اعتبار سے دونوں کا نظریہ برابر ہے کہ وہ دائمی جہنمی ہوگا۔جب کہ اہل سنت کہتے ہیں کہ مرتکب ِکبیرہ نہ تو ایمان سے نکلتاہے اور نہ ہی مخلد فی النارہوگا، بلکہ ارتکابِ کبیرہ سے اس کے ایمان میں نقص اورکمی لاحق ہوجاتی ہے۔