کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 28
کے ذریعہ سے اسلام کے ارکان کوگرانے کی کوشش کی: 1. توحید 2. عدل 3. منزلۃ بین المنزلتین 4. انفاذ الوعید 5. امربالمعروف ونہی عن المنکر 1. توحید: سے ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کیا جائے۔اور اس کی دلیل یہ دی کہ صفات ماننے سے اللہ تعالیٰ کا جسم لازم آئے گا،کیونکہ مخلوق بھی صفات کے ساتھ متصف ہے اور اس سے مخلوق کے ساتھ مشابہت لازم آئے گی حالانکہ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَيْئٌ﴾اللہ کے مشابہ کوئی چیز نہیں ہے، لہٰذا اللہ کی صفات ہی نہیں ہیں ،ان کا یہ نظریہ فاسد اور باطل ہے۔ صفات کا انکاردراصل توحید اسماء وصفات کا انکار ہے۔ حالانکہ اہل السنۃ والجماعہ اللہ عزوجل کی صفات کو کیفیت کی تفصیل میں جائے بغیر مانتے ہیں ، لہٰذا اس سے جسم ہونا لازم نہیں آتا۔ 2.عدل:اللہ تعالیٰ نے صرف خیر کو پیدا کیا ہے، شر کو اللہ نے پیدانہیں کیا بلکہ شر مخلوق کی تخلیق ہے۔ اس موضوع پراہل السنۃ کے ابواسحق اسفرائینی اور عبدالجبار معتزلی کا مناظرہ ہوگیا: عبدالجبار: سبحان من تنزّہ عن الفحشاء ’’ اللہ تعالیٰ شر کو پیدا کرنے سے پاک ہے۔‘‘ ابواسحق : سبحان من لا یقع في ملکہ إلا ما شاء ’’اللہ تعالیٰ پاک ہے جس کی بادشاہت میں کوئی چیز اس کے ا رادے کے بغیر واقع نہیں ہوتی خواہ وہ خیر ہو یا شر۔‘‘ عبدالجبار: أفیرید أن یُعصیٰ؟ ’’کیا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی نافرمانی کی جائے؟‘‘ ابواسحق: أفیُعصیٰ رُبنا مکرھًا؟ ’’ہمارا رب تعالیٰ نافرمان کی نافرمانی میں مجبور تو نہیں ہے ۔‘‘ عبد الجبار: مجھے بتلائیے اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے ہدایت کو روک لے اور میری ہلاکت کا فیصلہ کر