کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 27
تعالیٰ کی قسم اٹھا کر کہتاہوں اگر ان قدریہ میں کسی کے پاس احد پہاڑ کی بقدر سونا ہو اور وہ اسے اللہ کے راستے میں خرچ بھی کر دے تو تقدیر پر ایمان لائے بغیر اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں کرے گا۔اس کے بعد انہوں نے وہ مشہور حدیث بیان کی جو حضرت عمر فاروقؓ سے مروی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دن بیٹھے ہوئے تھے اچانک ایک آدمی آیا جس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے۔اس پرکوئی سفرکے آثار بھی نہ تھے اور نہ ہم میں سے کوئی اسے جانتا تھا۔وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے لگا کر اور آپ کے رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور سوال کیااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ایمان کے بارہ میں بتائیں ۔ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر اس کے فرشتوں ،کتابوں ،رسولوں ،اور آخرت پر ایمان لانا ہے اور اچھی بری تقدیر پر بھی…‘‘(صحیح مسلم:۱/۲۷) حجاج بن یوسف کو جب پتہ چلا تو اُس نے معبد کو گرفتار کرکے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے اور سولی دے دی،لیکن اس کے بعد غیلان دمشقی نے یہ عقیدہ پھیلانا شروع کردیا۔ اس کو عبدالملک بن مروان نے گرفتار کرکے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ کرسولی چڑھا دیا اور پھر آگ میں جلا دیا۔ لیکن اس کے بعد اس نظریہ کا عَلَم واصل بن عطا غزال نے اٹھایا، لیکن اس نے تھوڑی سی ترمیم کرلی کہ اللہ تعالیٰ اشیا کو ان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے جانتا ہے اور یہ بھی کہ خیر کاخالق تواللہ ہے، لیکن شر کا خالق اللہ تعالیٰ نہیں ۔گویا قدریہ دو طرح کے ہوگئے: ۱) قدریہ غلاۃ: یہ غیلان دمشقی کی ہلاکت سے ختم ہوگئے۔ ۲) قدریہ معتزلہ: واصل بن عطا سے اس فرقہ کی ابتدا ہوئی جو معتزلہ کا بانی ہے۔ اس کے نظریات کو عمرو بن عبید معتزلی نے بڑے زوروشور سے پھیلایا۔ قدریہ معتزلہ نے اپنے خود ساختہ تصورات کو متعارف کرانے کے لئے پانچ اُصول بنائے جن کے نام توبظاہر اہل سنت والے رکھے، لیکن ان کی تعبیر خود ساختہ کی۔ مزید برآں معتزلہ نے اپنا نام بھی ’اہل العدل والتوحید‘رکھا جیسا کہ آج کل لوگ اپنا نام اہل سنت والجماعت رکھ لیتے ہیں ، لیکن ساتھ ہی شرک و بدعت میں بھی مبتلا رہتے ہیں ۔ قدریہ معتزلہ کے اُصولِ خمسہ فاسدہ جن پر انہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد رکھی اور ان