کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 26
3.مخلوقات سے بڑھ کر اپنی امت کے خیر خواہ تھے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ایک واضح دین کے راستے پر چھوڑا ہے جس کی راتیں بھی دنوں کی طرح جگمگاتی ہیں اور اس دین کے عقائد واعمال میں کوئی تاریکی اور اندھیرا نہیں پایا جاتا۔اس دین کو چھوڑ کر وہی شخص ہلاک ہوتا ہے جو بدقسمت ہو۔ایسے دین کے ہوتے ہوئے ہمیں اپنے عقائد واعمال میں فلاسفہ،متکلمین اور دیگر گمراہ فرقوں کے پیچھے چلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ توحید ِاسماء وصفات میں خرابی کرنیوالے فرقے اسماء و صفات میں مشہورگمراہ فرقے پانچ ہیں : 1. قدریہ 2.رافضہ 3. جہمیہ 4. خوارج 5. کرامیہ 1. قدریہ اس کا بانی ایک عیسائی ’سوسن‘ تھا۔ وہ معبد جہنی سے ملا اور اسے یہ عقیدہ دیا کہ کسی بھی چیز کے وجود میں آنے سے پہلے اللہ کو اس کا علم نہیں ہوتا اور تقدیر کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ بصرہ کا رہنے والا تھا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ یحییٰ بن یعمرؓ کہتے ہیں : ’’معبد جہنی پہلا شخص ہے جس نے بصرہ میں تقدیر کا قول اختیار کیا میں اور حمید بن عبد الرحمن حمیری حج یا عمرہ کے لیے روانہ ہوئے تو ہم نے کہا وہاں اگر ہماری ملاقات کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان قدریہ کے بارہ میں سوال کریں گے۔اتفاق سے وہاں ہماری ملاقات حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے ہو گئی جب کہ وہ مسجد میں داخل ہو رہے تھے ۔ہم دونوں میں سے ایک ان کے دائیں اور دوسرا بائیں جانب ہو گیا۔میں سمجھا کہ میرا ساتھی مجھے ہی بولنے کا موقع دے گاتو میں نے کہا اے ابوعبد الرحمن! ہمارے ہاں بصرہ میں کچھ ایسے لوگ نمودار ہو رہے ہیں جو قرآن کریم پڑھتے ہیں اور علم کے طلب گار ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی تقدیر مقرر نہیں کی اور ہر چیز نوپید ہے تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا:جب آپ ان لوگوں سے ملیں تو ان سے کہنا میں ایسے لوگوں سے بری ہوں اور ان کامجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔میں اللہ