کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 23
مقصود توحید ِربوبیت نہ تھی بلکہ توحید اُلوہیت اَصل مقصود تھی۔ اور مشرک اسی کو کہا جاتا ہے جو اللہ کو تو مانتا ہو، لیکن ساتھ ہی دوسروں کوبھی شریک کرتا ہو۔ 2.توحید ِاسماء وصفات ’’ھو إثبات أسماء اللّٰه تعالیٰ وصفاتہ إثباتًا بلا تشبیہ وتنزیہًا بلا تعطیل‘‘ ’’اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کو ویسے ماننا (جیسے قرآن و سنت میں آئے ہیں یعنی ہر صفت ِکمال اللہ کے لائق ہے اور وہ ہر نقص سے پاک ہے) لیکن یہ اثبات بغیر تشبیہ کے اور نقائص سے منزہ قرار دینا بلاتعطیل کے ہونا چاہئے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفات کی ماہیت، کیفیت، حقیقت صرف اللہ جل جلالہ کے علم میں ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات کی ماہیت، کیفیت اور حقیقت بھی صرف اللہ ہی کے علم میں ہے۔ دلیل: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئٌ وَّھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾ ’’ اللہ کے مثل کوئی نہیں ، اور وہ سمیع وبصیر ہے۔‘‘ اس آیت میں تمثیل و تشبیہ اور تعطیل دونوں کی نفی ہوگئی،مثلاًبعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرتا تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ میں نقص ہے۔ معاذ اللہ وہ تو ہر نقص سے پاک ہے۔ 3.توحید قصد وطلب اس سے مراد توحیدِالوہیت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔ اورہرقسم کی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کرنا توحید اُلوہیت(توحید القصد والطلب)کہلاتا ہے۔ عبادت کی کئی قسمیں ہیں : 1.قولی 2.مالی 3. بدنی قولی:اب اگر کوئی شخص کہے ’یاعلی مدد‘ تو گویا اس نے قولی عبادت میں علیؓ کو اللہ کا شریک بنایا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا﴾ (الجن:۱۸) ’’یعنی اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔‘‘