کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 21
اس علم کا حکم اس کی دو صورتیں ہیں : 1. اس کو علیٰ الاجمال سیکھنا سب مسلمانوں پرفرض ہے یعنی ہرشخص کو علم ہوناچاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات موجود ہے اور وہ ہر چیز کا خالق ومالک ہے اور ہر چیز میں تصرف کرنا اللہ ہی کا حق ہے اور یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ عبادت کے لائق صرف وہی ہے، مدبر بھی وہی ہے، رازق وداتا بھی وہی ہے اور اللہ تعالیٰ ہر کمال کے ساتھ موصوف اور ہر عیب اور نقص سے پاک ہے اور رسولوں کے بارے میں یہ علم ہونا چاہئے کہ وہ اللہ کے فرستادہ ہیں اور وہ اپنی دعوت میں سچے ہیں جو اپنی خواہش سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحی سے کلام کرتے ہیں ۔ 2.تفصیلی طور پر اس علم کو سیکھنا فرضِ کفایہ ہے۔ یعنی مسلمانوں میں سے اگر اتنے لوگ اس علم کو سیکھ لیں کہ مسلم معاشرے کی ضرورت پوری ہوجائے تو یہ فرض دیگر مسلمانوں سے ساقط ہوجائے گا۔ توحیدکی اَقسام توحید کی بنیادی طور پر دوقسمیں ہیں : 1. توحید في الإثبات والمعرفۃ 2. توحید فی القصد والطلب 1. توحید في الأثبات والمعرفۃ (توحید ِنظری) اس کی آگے دو قسمیں ہیں : (i) توحید ِربوبیت (ii)توحید ِاسماء وصفات 2.توحید فی القصد والطلب (توحید ِعملی وطلبی) توحید ِاُلوہیت اور توحید فی العبادۃ بھی اس کے نام ہیں ۔ الغرض توحید کی کل تین قسمیں ہوگئی: