کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 19
آتی ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے عقیدہ کو درست کرنا ضروری ہے۔لہٰذا مشرک کو نماز سے محض ٹکریں مارنے کے سواکچھ نہیں ملتا۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے ۲۳ سال میں سے ۱۳ سال عقیدے کی درستگی پر لگائے اور باقی سارا دین مدینہ منورہ میں ۱۰سال میں پورا ہوگیا۔ چار شرطوں کے پائے جانے سے انسان مکلف بنتا ہے: 1.عقل 2. بلوغت:اور بلوغت کا علم مندرجہ ذیل چیزوں سے حاصل ہوتا ہے،احتلام،عمر اور زیر ناف بالوں کا اگنا،اسی طرح عورت کے لیے حیض آنا۔ 3.بلوغِ دعوت یعنی دعوتِ توحید کا پہنچنا 4. سلامۃ إحدی الحاستین یعنی کان اور آنکھوں میں سے کسی ایک کے صحیح اور کار آمد ہونے سے بھی انسان توحید کا مکلف بن جاتا ہے۔ ان شروط کے پائے جانے سے انسان علم التوحیدکامکلف بن جاتاہے۔ علم توحید کے دیگر نام اس علم کو ’عقیدہ‘،’ علم اُصول الدین‘ یا ’الفقہ الأکبر‘بھی کہتے ہیں ۔ اس علم کی فضیلت (i) موضوع کے اعتبار سے یہ علم اَفضل العلوم ہے،کیونکہ اس کا موضوع اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات،اسمائ، اُلوہیت اور عبودیت وغیرہ ہے۔ (ii) غرض وغایت کے اعتبار سے بھی یہ علم سب سے افضل علم ہے،کیونکہ علم التوحید کی غرض وغایت یہ ہے : ’’معرفۃ الحق بالأدلۃ القطعیۃ والفوز بالسعادۃ الأبدیۃ‘‘ ’’یعنی حق تعالیٰ کو یقینی اور قطعی دلائل سے پہچاننا اور آخرت کی دائمی سعادت حاصل کرنا۔‘‘ بندوں پر سب سے پہلا فریضہ عقیدۂ توحید کی معرفت ہے جیسا کہ مسند احمد، سنن دارمی، موطأ،بخاری،مسلم، نسائی،ترمذی وغیرہ میں مروی ہے کہ جب معاذ ؓکونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن