کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 18
عیسائیوں کے ہاں اگرچہ پختہ عقیدہ ہے، لیکن امرِ واقع کے خلاف ہونے کی وجہ سے نہایت باطل اور فاسد عقیدہ ہے۔‘‘
2.غلبہ ٔ ظن کوبھی علم کہتے ہیں جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ﴾ (الممتحنہ:۱۰)
یہاں کسی عورت کے مؤمن ہونے کے متعلق غلبۂ ظن توہوسکتا ہے، علم یقینی نہیں ،کیونکہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کی بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا۔ گویا جس طرح ’علم یقین‘ حجت بنتا ہے اور معتبر ہوتا ہے، اسی طرح شرعی احکام میں غلبۂ ظن بھی معتبر ہوتاہے جیساکہ مذکورہ بالا آیت اس پر دلالت کرتی ہے۔
الغرض اعتقادِ جازم اور غلبۂ ظن دونوں شریعت میں حجت ہیں ۔
توحید:واحد کے ہم معنی ہے یعنی اللہ کو ایک ماننا اورکسی کو اس کا شریک نہ بنانا۔
علم التوحید: مذکورہ بالا تفصیلات کے پیش نظر اس کی تعریف یوں ہوئی:
ھو إثبات ذات اللّٰه سبحانہ وتعالیٰ مع نفي مشابہتہا للذوات وعدم تعطیلہا عن الصفات ووجوب إفرادھا بالعبادات
تعریف میں شامل ہرنکتے کی تفصیل حسب ِذیل ہے:
اثبات ذات اللّٰه: یعنی وجودِ باری تعالیٰ کا اقرار کرنا۔
نفي مشابہتہا للذوات:یعنی اللہ خالق ہے باقی سب مخلوقات،اور خالق مخلوق کے مشابہ نہیں ہوسکتا۔
وعدم تعطیلہا عن الصفات:صفات کو اسی طرح ماننا جیسے قرآن و سنت میں وارد ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی نفی سے بچنا۔
ووجوب إفرادھا بالعبادات:کسی بھی قسم کی عبادت خواہ وہ قولی ہو جیسے دعا، خواہ بدنی ہو جیسے کسی کے لیے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوناخواہ مالی عبادات مثلاً نذرو نیاز، ان کو اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کے لئے ہی خاص ماننا
انسان سب سے پہلے توحید کامکلف ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ، جہاد کی باری بعدمیں