کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 15
کے ادارہ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے معاونین کے طور پر ملاقاتیں ہوتی رہیں ، ان کے ہمراہ بعض ورکشاپوں میں بھی شریک ہونے کا موقع ملا، بالخصوص واشنگٹن میں جناب اظہر حسین سے کئی گھنٹوں کی نشست ہوئی۔ پروگرام کے آخری لمحات میں راقم نے ان حضرات سے ازراہِ تفنن یہ تبصرہ کیا کہ آپ دینی مدارس اور دینی صحافت کو نئی راہِ عمل دینے کی کوشش پر اپنا وقت بے جا صرف کررہے ہیں ۔ اُمت ِمسلمہ کا مسئلہ پالیسی اور ہدف کا نہیں بلکہ بدنظمی، بے عملی اور جہالت کا ہے۔ پالیسی تو ہمارے پاس اوّل روزسے بڑی شاندار موجود ہے جو کتاب وسنت جیسے نسخۂ کیمیا پر مخلصانہ عمل ہے، جب بھی مسلم اُمہ نے اجتماعی یا انفرادی طورپر اس کے کسی حصہ پر عمل کیا ہے، کامیابی نے آخرکار اس کے قدم چومے ہیں ۔ مسلم قوم اگر اس عظیم الشان دستورِ حیات پر عمل نہ کرکے آج خائب وخاسر اور شرمندگی کی تصویر بنی کھڑی ہے، تو ایک غیر قوم کی پالیسی اور طرزِ فکر اس کوتاہی ٔ عمل کا وبال کیوں کر ختم کرنے پر قادر ہے؟ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم قوم کے اَفراد کو حصولِ علم، فراہمی عدل، محنت کی عظمت اور اللہ کی بندگی پر دوبارہ لوٹایا جائے۔ انفرادی اصلاح سے لے کر مسلمانوں کے اجتماعی ڈھانچوں تک کو راست اقدامات کی تلقین کی جائے۔عوام و حکمران اپنے ذاتی اغراض ومفاد سے نکل کر، اپنی ملت کی دینی ودنیوی تشکیل وتعمیر کی طرف معمولی سی توجہ بھی کریں توملت ِاسلامیہ چند برسوں میں اپنا کھویا مقام حاصل کرسکتی ہے۔اس سلسلے میں ایران، سعودی عرب اور ملائیشیا کے مسلم حکمرانوں کی کاوشیں ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں ۔ یہ تصور کہ اسلام اس دور کے ساتھ نہیں چل سکتا، اس لئے اس کی تشکیل نو کی ضرورت ہے، غیروں کا مسلط کردہ ایک تصور ہے، جو کالونیل ازم کے خاتمے کے بعد فرسودہ ہوچکا ہے، اسلام میں ہر اس بات کی ترغیب وتلقین موجود ہے جس سے قوموں کی تعمیر و ترقی وابستہ ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی سے لے کر علم وفن کے ہر پہلو کی اسلام میں شدید حوصلہ افزائی پائی جاتی ہے، ان حالات میں غیروں کے فلسفہ ہائے ترقی اور مختلف ماڈلز کو متعارف کرانے کا اس حد تک فائدہ تو ہوسکتا ہے کہ اس کی تکمیل کے لئے ہمیں خیرات کے چندسکے بآسانی حاصل ہوجائیں ، لیکن یہ