کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 14
جو دین بیزار ودین مخالف ہے۔ راقم نے مقرر موصوف کو یہ تلقین کی کہ اُنہیں مسلم صحافتی قیادت کو ایسے نظریات سکھانے سے گریز کرنا چاہئے جن کی ہمارے عقیدہ ونظریہ میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شعبۂ دینیات کے سربراہ ہونے کے ناطے اُنہیں ان نظریات کو اسلام کی میزان پر پرکھ کر پیش کرنا چاہئے، نہ کہ ہر غلط سلط نظریہ کو قبول کرلیا جائے۔ ہرقوم کے نظریات اس کے تصور اور مقصد ِحیات سے بندھے ہوتے ہیں ، اور وہ اپنے ان تصورات کے تحت اپنے نظریات تشکیل دیتی ہے۔ایک مسلمان کا تصورِ حیات جب ایک غیرمسلم سے سراسر مختلف ہے تو دونوں کے فکری نظریات میں ہم آہنگی کیوں کر ہوسکتی ہے؟ باقی ڈیڑھ دن بھی اسی نوعیت کا تبادلہ خیال چلتا رہا، جن پر دیگر شرکا بھی آزادانہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ بالخصوص آخری دن پاکستان میں امریکی مداخلت کے موضوع پر بڑا سرگرم مباحثہ ہوا، جس میں مرزا ایوب بیگ اور جناب امجد عباسی نے بھرپور حصہ لیا۔ ورکشاپ میں بعض لیکچرز خالصتاً پیشہ وارانہ فنی نوعیت کے تھے جن میں جناب سید راشد بخاری کا لیکچر ’اداریہ نویسی‘ پر بطورِ خاص مفید رہا۔جناب سلیم قیصر عباس نے انٹرویو تکنیک، متوازن اور مؤثر تحریر کے اُصول کے موضوع پرلیکچر دیا۔ منتظمین سے ہم نے یہ مطالبہ کیا کہ میدانِ صحافت کے نامورماہرین کو بھی اس نوعیت کے ورکشاپس میں دعوت دی جانا چاہئے تاکہ ان کے علم اور تجربات سے بھی ہم کچھ سیکھ سکیں ۔ ٭ پروگرام کے بقیہ اَوقات میں شرکا کی باہمی مجالس میں یہ طے پایا کہ لاہور میں دینی صحافت کے سرکردہ افراد کی ایک سہ ماہی ملاقات کا پروگرام تشکیل دیا جائے، اس سلسلے میں ہر حلقہ فکر کو نمائندگی دیتے ہوئے جناب راغب نعیمی، محمد عمار ناصر، مرزا محمد الیاس، مرزا ایوب بیگ اور راقم الحروف پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جن کی آئندہ ملاقات لاہور میں ہونا قرار پائی۔ پروگرام کے روح رواں ، جناب اظہر حسین اور سید راشد علی بخاری صاحبان تھے،جن کے ساتھ قاضی عبد القدیر خاموش اور حافظ حسین احمد کے بلوچستان سے ایک قریبی عزیز کی مشاورت ہوتی رہتی۔ اس سے قبل بھی یہ حضرات دینی مدارس میں مختلف نوعیت کی ورکشاپس منعقد کرتے رہتے ہیں ، اوّل الذکر دونوں صاحبان سے پانچ برس قبل محترم پروفیسر خورشید احمد