کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 13
درست نہیں ۔ اسلام کی رو سے خیرالقرون، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دور تھا، اس کے بعد صحابہ کا زمانہ اور پھر تابعین کا زمانہ بہترین اَدوار تھے، پھر انسانیت آہستہ آہستہ زوال کی طرف گامزن ہوتی جارہی ہے۔ایسے ہی اہل مغرب جن قرونِ وسطیٰ کو Dark Age یا ظالمانہ دور سے تعبیر کرتے ہیں ، مسلمانوں کے نزدیک وہ علوم کا سنہرا دور ہے۔ دراصل ان کی یہ تعبیر اہل مغرب کے لحاظ سے بالکل درست ہے کہ وہ اس وقت ظلم وستم کاشکار اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن اہل اسلام کے اعتبار سے سراسر غلط ہے۔
سب سے پہلے دور کو شکار کا دور قرار دینا بھی غیراسلامی نظریہ ہے، کیونکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے سب سے پہلے انسان حضرت آدمؑ انسانیت کے لئے اللہ کی ہدایت ورہنمائی لے کر آئے، اور انسانیت کبھی بھی رہنمائی سے محروم نہیں رہی۔ ہمیشہ سے نیک انسان موجود اور خیر وشر کے مابین کشمکش برقرار رہی ہے۔ شکاری دور کا نظریہ ان لوگوں کا ہے جو انسان کو ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے مطابق بندروں کی اولاد قرار دیتے اور اسے آہستہ آہستہ حیوانیت سے انسانیت کی طرف ترقی کرتا ہوا دکھانا چاہتے ہیں ۔
ایسے ہی چوتھے دور کو انسانیت کی معراج قرار دینا بھی درست نہیں ۔ انسانیت کی معراج اللہ کی بندگی میں ہے، نہ کہ خواہشِ نفس کی بندگی اور مادی ترقی میں جو دراصل جاہلیت ِجدیدہ کی معراج ہے۔انسان کی معراج نمازاوراللہ کی اطاعت میں ہے جب وہ اپنے مقصد ِحیات کی باحسن تکمیل کررہا ہو۔ توازن واعتدال کا مصدر وسرچشمہ اللہ کی ہدایت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے، اس کے ماسوا سب کچھ انسانوں کی اِفراط وتفریط ہے۔
جاہلیت اور علم کی روشنی کے مابین احیاے علوم کی مغربی تحریک کا نقطہ فاصل بھی سراسر غلط ہے۔ جاہلیت کا خاتمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں زمانۂ جاہلیت کے تمام رسوم ورواج کو اپنے پاؤں تلے روند کرکیا تھا، اور اس کے بعد علم وعمل کا سورج طلوع ہوگیا تھا۔ جبکہ احیاے علوم کو روشنی قرار دینے کا نظریہ اسلام کو جہالت سے متہم کرنے کا دعویٰ ہے۔احیا کی اس مغربی تحریک کا مرکزی اور اساسی نکتہ علم کو اللہ کے وحی والہام سے نکال کر انسانوں کے حواس وعقل کا اسیر بنانا تھا، اور مغرب کی تمام تر موجودہ ترقی اسی نظریے کے مرہون منت ہے