کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 12
سدباب ہو جائے اور ایسے گھمبیر حالات میں ہم پر عائد فریضہ بھی پورا ہوجائے۔ راقم کے اس اصرار کا یہ نتیجہ نکلاکہ دو برس قبل بھی دینی مدارس کے لئے ہونے والا یہ پروگرام قیامِ امن کے لئے دینی مدارس میں نصاب کی تیاری کے بغیر ہی ختم ہوگیا۔
٭ حافظ عبد الغنی صاحب نے اپنے خطاب میں حاضرین کو علم ورشد کی تلقین کرتے ہوئے انسانیت کے اَدوار کی تقسیم پر یہ نظریہ پیش کیا کہ انسانوں کی ترقی اور تہذیب کے حوالے سے معلوم تاریخ کو ہم چار اَدوار میں تقسیم کرسکتے ہیں :
ابتداے آفرینش میں تمام انسانوں کی زندگی کا دارومدار شکار پر تھا، اِس دور کو ہم Hunting Age(شکاری دور) سے تعبیر کرسکتے ہیں ، جب ہر انسان کی کامیابی اس کی قوت اور زورِ بازو کی مرہونِ منت تھی۔ اس دور کی علامت Symbol تیرکمان ہے۔ انسانیت کا دوسرا دور کاشتکاری کا ہے جس کی علامت ’ہل‘ ہے، یہ زراعت کا دور ہے جس میں برتری کا انحصار زمین، کھیتی باڑی اور اناج کی پیدوار پر تھا۔اسےAgriculture ageسے یاد کیا جاتا ہے، انسانوں کی یہ صورتِ حال قرونِ وسطیٰ تک جاری رہی۔ انسانوں کی ترقی کا تیسرا دورعلم وتعلیم اورصنعت وحرفت کا ہے جو احیاے علوم کی تحریک سے شروع ہوا، اسے Knowledge ageقرار دیا جاتا ہے۔ اس دور کی علامت ’کمپیوٹر‘ ہے۔ اس دور میں انسانوں نے تہذیب وترقی کی عظیم منزلیں طے کیں اور بے شمار ادارے تشکیل دیے۔اب ہم جس دور کی طرف بڑھ رہے ہیں ، وہ تجزیہ وتقابل اور توازن کا دور ہوگا، جس میں انسانیت اپنے معراج پر پہنچ جائے گی، اس دور کی علامت ’کمپاس‘ ہوگا اور اس کو Wisdom Age سے موسوم کیا جائے گا۔ آنے والے زمانہ میں وہی کامیاب ہوگاجو اِن خصوصیات کو اختیار کرے گا۔
لیکچرر موصوف نے اس نظریے کی مزید تفصیلات بھی بیان کیں ، لیکن راقم نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے یہ موقف پیش کیا کہ تاریخ و زمانہ کی یہ خالصتاً مادی، مغربی اور غیرحقیقی تقسیم ہے، جسے بطورِ مسلمان قبول نہیں کیا جاسکتا۔اس تقسیم کی رو سے بہترین دور آنے والا ہے، اور خیر وشر کے مابین نقطہ فاصل مغرب کی تحریک ِاحیاے علوم کو قرار دیا گیا ہے جو کہ