کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 11
سے کس نے اس کی تلقین کی ہے، تو جناب مقرر عربی زبان میں ہونے کے سوا اِسلام سے اس کی قربت کی کوئی دلیل و وضاحت پیش نہ کرسکے۔
اس موقع پر راقم کو دوبرس قبل دسمبر ۲۰۰۷ء میں لاہور کے دینی مدرسہ دارالعلوم الاسلامیہ ، کامران بلاک میں اسی ورکشاپ کے روح رواں حضرات کی زیر نگرانی ’جدوجہد برائے امن‘ نامی ایک پروگرام میں شرکت کا موقع یاد آگیا۔ جب یہ حضرات مختلف دینی مدارس سے وابستہ اَفراد کو اپنے نصاب میں امن پر مبنی تعلیمات کی بھرپور تلقین کرکے اس کے لئے ایک مستقل نصاب وضع کرنے پر اِصرار کررہے تھے۔ اس موقع پر راقم نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ ان حالات میں جب پاکستان بدترین امریکی جارحیت کا سامنا کررہا ہے او ریہ جارحیت افغانستان وعراق میں بدترین قتل وغارت کی شکل دھار چکی ہے، افغانستان وعراق میں امریکی بربریت کے نتیجے میں بالترتیب ۱۲ لاکھ عراقی اور ۶ لاکھ افغانی لقمہ اجل بن چکے ہیں ، محب ِدین وملت طبقات اس بارے میں فکر منداور مزاحمت برائے بقا کی کوششوں میں شریک ہیں ، ان حالات میں باامن رہنے کی معنویت زمانی سیاق وسباق سے بالکل بعید تردکھائی دیتی ہے۔ امن کی اس بے وقت کی دعوت کا مطلب تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے گھر پر پتھراؤ اور بدترین جارحیت ہورہی ہو اور گھر والے اپنے با امن رہنے کا راگ اَلاپ رہے ہوں یا اُنہیں اس کی تلقین کی جارہی ہو۔ اس تلقین کو امن کی بجائے بے غیرتی اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر دشمن کے سر پر آپہنچنے کے انتظار سے تعبیر کرنا زیادہ موزوں ہوگا۔ظلم وجارحیت سے متاثرہ ملت ہونے کے ناطے ہمیں اس وقت گہرے غور وخوض سے اس امر کا تعین کرنا چاہئے کہ مسلمان عوام وخواص کونسا رویہ اپنائیں جس سے وہ اس ہلاکت و جارحیت سے بچ سکنے پر قادر ہوں ۔
ا س وقت بھی میری رائے یہ تھی کہ حکومتوں کو مالی مفادات کا لالچ اور سیاسی مجبوریوں میں اُلجھا کر دوسری طرف عامۃ المسلمین کے لئے امریکی حکمت ِعملی یہ وضع کی گئی ہے کہ احتجاج کے ممکنہ مراکز میں تلقینِ امن کرکے عوام الناس کے کرب واضطراب کو کم کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس حکمت ِعملی کی تردید کا یہ واحد مطلب نہیں کہ لازماً بھڑ جایا جائے اور جواباً تشدد کو اپنالیا جائے، بلکہ اس کے لئے ایسی منظم اور موزوں حکمت ِعملی ہی ضروری ہے جس سے اس ظلم کا