کتاب: محدث شمارہ 335 - صفحہ 10
سکتا ہے، لیکن دونوں نظامہائے حیات کا معمولی سا جائزہ وتجزیہ رکھنے والا شخص رجحانات کے اس اختلاف کو فوراً بھانپ لے گا۔ ایسی ہی صورتحال بعد کے محاضرات کے دوران بھی رہی۔ ٭ حافظ عبد الغنی ایک مشہور امریکی مستشرق سے مختلف نظریات کی باقاعدہ تربیت لے چکے ہیں ، اور اس میں سے ہی بعض نظریات اُنہوں نے حاضرین کے سامنے پیش کئے۔ اُنہوں نے لیکچر کے آغاز میں اَمن کی تلقین اور اس کی اہمیت وضرورت پر روشنی ڈالی۔ پراَمن رہنے کے سلسلے میں اُنہوں نے ’ایک بہترین دعا‘ کا عربی متن حاضرین کے سامنے پیش کیا۔ پرامن رہنے کے بارے میں بتاتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ہمیں پرسکون رہنے اور اپنے حالات پر زیادہ کڑھنے سے گریز کی ضرورت ہے۔ ہمارے ذہن کو اطمینان سے بھرپور اور بے چینی سے پاک ہونا چاہئے، تبھی ہم اپنے فرائض کو بہتر طورپر انجام دے سکتے ہیں ۔ راقم نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ مقرر موصوف کی یہ تلقین واقعتا مفید او راہم ہے، لیکن اس کے لئے اُنہوں نے درست مخاطبوں کا انتخاب نہیں کیا۔ دینی صحافت کے مدیران درحقیقت تحریری میدان میں اُمت کے حالات کی اصلاح کے لئے کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں اور اپنے اوپر عائد ہونے والے دینی فریضہ کی تکمیل میں منہمک قیادت ہیں ۔ اگر اُسوئہ نبوی کو دیکھا جائے تو اُمت کے حالات پر فکر مند ہوکر، ان کی گمراہی کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر مندی اس قدر حد سے بڑھی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر آپ کو یہاں تک کہا کہ شاید اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو ہلاکت کا شکار نہ کربیٹھیں ۔ کوئی بھی قائد جب تک اصلاحِ احوال کے لئے شدید درجہ کی بے چینی اور کڑھن اپنے دل میں محسوس نہ کرے، اس وقت تک وہ اپنی قوم کو مصائب ومشکلات سے نہیں نکال سکتا۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی قائد کے اقدامات جوش سے زیادہ ہوش اور دانش مندی پر مبنی ہونے چاہئیں لیکن فکر مندی کے حالات میں پرسکون اور مطمئن رہنے کی دعوت ملی ضرورت سے زیادہ شخصی مفاد سے وابستہ ہے۔ حافظ صاحب کی پیش کردہ عربی دعاے امن کے بارے میں جب یہ استفسارکیا گیا کہ یہ دعا اُسوئہ نبوی میں ہمیں کہاں مل سکتی ہے، یا صحابہ وخیرالقرون اور ائمہ اسلاف رحمہم اللہ میں