کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 9
یہ بھی تھی کہ وہ ناپ تول میں کمی کرتے تھے، حالانکہ یہ بڑے آسودہ حال تھے۔ جب یہ لوگ حضرت شعیب علیہ سلام کی نصیحت پر بھی باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آگ برسا کر ان کو مال ودولت سمیت تباہ کر دیا۔یہ عذاب اس طرح آیا کہ پہلے سات دن تک ان پر سخت گرمی اور دھوپ مسلط کر دی۔ اس کے بعد بادلوں کا ایک سایہ آیا، چونکہ یہ لوگ سات دن کی سخت گرمی سے بلبلائے ہوئے تھے، اس لیے سب سائے تلے جمع ہوگئے تا کہ ٹھنڈی ہواؤں کا لطف اُٹھائیں ۔ لیکن چند لمحے بعد ہی آسمان سے آگ کے شعلے برسنا شروع ہو گئے، زمین زلزلے سے لرز اُٹھی اور ایک سخت چنگھاڑ نے اُنہیں ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا۔قرآنِ حکیم نے اس واقعہ کی طرف ان الفاظ سے اشارہ کیا ہے : ﴿فَکَذَّبُوہُ فَاَخَذَہُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِ إِنَّہُ کَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ﴾[الشعراء :۱۸۹] ’’اُنہوں نے اسے(شعیب علیہ سلام کو) جھٹلایا تو اُنہیں سائبان والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا۔ وہ بڑے بھاری دن کا عذاب تھا۔‘‘ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ إِلاَّ أُخِذُوا بِالسِّنِینَ وَشِدَّۃِ الْمَؤُنَةِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ )) [سنن ابن ماجہ :باب العقوبات] ’’جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اور حکمرانوں کا ظلم مسلط کر دیاجاتا ہے۔ ‘‘ چونکہ ناپ تول میں ڈنڈی مارنا ظلم ہے جس کی دین اسلام میں قطعاگنجائش نہیں ۔اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ دیتے وقت ذرا جھکتا ہوا دیا جائے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ((إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا)) [سنن ابن ماجہ :باب الرجحان في الوزن] ’’جب تول کر دو تو جھکتا ہوا دو۔‘‘ 7.قسمیں نہ کھائیں بعض تاجر اگر جھوٹی قسمیں کھا کر دھوکا دہی کے مرتکب ہوتے ہیں تو بعض گاہکوں کو مطمئن کرنے کے لیے بہت زیادہ قسمیں کھا تے ہیں ۔ جھوٹی قسم تو بد ترین گناہ ہے، روزِ قیامت اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا لیکن سچی قسم سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔