کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 8
بھائی کو ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو سوائے اس کے کہ وہ اس پر واضح کردے۔ ‘‘ یعنی فروخت کنندہ کو چاہیے کہ وہ خریدار پر واضح کرے کہ مال میں یہ نقائص ہیں ۔ مال کے عیوب چھپانا کتنا عظیم جرم ہے، اس کی سنگینی کااندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں سے بیزاری اور بے تعلقی کا اعلان فرمایا ہے جو چیز کا عیب ظاہر کئے بغیر فروخت کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے توآپ نے اپنا ہاتھ اس ڈھیر میں داخل کیا۔ آپ کی اُنگلیوں نے گیلا پن محسوس کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے غلے والے! یہ کیا ہے؟اُس نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس پر بارش پڑ گئی تھی۔ آپ نے فرمایا: تم نے اس بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہ کر دیا تاکہ لوگ اس کو دیکھ سکتے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے دھوکا دیا، اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ [صحیح مسلم: باب قول النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم من غشنا] یہاں یہ نکتہ غور طلب ہے کہ تاجر نے غلے کو خود گیلا نہیں کیا تھا بلکہ محض گیلے حصے کو چھپایا تھا مگر آپ نے اسے بھی قابل گرفت قرار دیا۔ کیونکہ ناقص خوراک سے لوگوں کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔کم روشنی میں گاہک کے سامنے مال پیش کرنا یا مال کی دو تہیں ہوں تو صرف عمدہ تہہ ہی دکھانا بھی دھوکہ دہی میں داخل ہے۔ 6.ناپ تول میں ڈنڈی نہ ماریں دھوکا دہی اورفریب کی بد ترین قسم ناپ تول میں کمی ہے۔ جو لوگ اس سنگین جرم کے مرتکب ہیں وہ اسلام کی نگاہ میں قابل نفرت اور سخت سزا کے مستحق ہیں ۔ قرآنِ مجید نے اس جرم کی شناعت و قباحت اور اُخروی سزا یو ں بیان فرمائی ہے : ﴿وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ ۱ الَّذِینَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ ۲ وَإِذَا کَالُوہُمْ أَوْ وَزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ ۳ ﴾ [المطفّفین:۱،۲،۳] ’’ ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب اُنہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں ۔‘‘ حضرت شعیب علیہ سلام جس قوم میں مبعوث کئے گئے، ان میں شرک کے علاوہ ایک نمایاں بیماری