کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 79
’’جبریہ گمراہ ہوگئے کیونکہ وہ تکوینی اور شرعی دونوں اَمروں میں فرق نہ کرسکے، اُنہوں نے ان دونوں کو خلط ملط کردیا اور انسانی ارادے کا انکار کردیا، جبکہ معتزلہ نے انسانی ارادے ہی کو بنیاد بنا لیا اور کہا کہ بندہ ہی اپنے افعال کا خالق ہے، اس طرح وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔ ہم ان دونوں طبقوں کے اچھے پہلوؤں کو لے لیتے اور اُنہیں صراطِ مستقیم پرجمع کردیتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ تکوینی اور شرعی دونوں امروں میں مشیت ِالٰہی ہی اساس ہے لیکن امر شرعی میں بندے کے ارادے کوایک مرتبہ دیا گیا ہے اور یہ اسے شرطِ عادی کے طور پر شمار کرنا ہے، اگر اس کے ساتھ مشیت کا تعلق نہ ہو تو کوئی چیز وجود میں نہ آئے لیکن وہ اشیا جن کا خارجی وجود نہیں ہے ، ان کا یہ اُسلوب نہیں ہے کیونکہ مشیت ِالٰہی کا تو تمام بُرے اُمور سے بھی تعلق ہے، البتہ اللہ تعالیٰ برے امور کو پسند نہیں فرماتے یہی وجہ ہے کہ بندے کو گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے سزا ملے گی۔‘‘ ٭ ہدایت اور گمراہی کے بارے میں مشیت ِالٰہی کی وضاحت کرتے ہوئے ص۱۰۲ پر لکھتے ہیں : ’’ہدایت و ضلالت کے مشیت ِالٰہی کے ساتھ ربط کو قرآنِ کریم کی بہت سی آیات میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً ﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّھْدِیَہ یَشْرَحْ صَدْرَہ لِلْاِسْلاَمِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہ یَجْعَلْ صَدْرَہ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِیْ السَّمَآئِ کَذلِکَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلی الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ﴾ [الانعام:۱۲۵] ’’تو جس شخص کو اللہ چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے تو اس کا سینہ تنگ گھٹا ہوا کردیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ اسی طرح اللہ ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے، عذاب بھیجتا ہے۔‘‘ اس آیت کی تشریح میں ص۱۰۳ پر لکھتے ہیں : ’’جس طرح اس نے ہمیں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، اسی طرح اس نے ہمیں اس کام کے لیے اپنے ارادے کو استعمال کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائی ہے جو ہم کرنا چاہیں ۔ ہمیں ارادہ عطا فرمانے کے باوجود مشیت و اِرادہ اس کی ذات پاک کے لیے مخصوص ہے، جبکہ ہدایت و ضلالت دونوں اس کے اختیار میں ہیں پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا نہ کوئی ہدایت دینے والا ہے اور نہ گمراہ کرنے والا۔‘‘