کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 78
جو اشیا موجود نہ ہوں ، وہ مخلوق نہیں البتہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں یعنی ان کا علمی وجود ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارادہ وقدرت سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ اگر معاملہ اس نظریہ کے برعکس ہوتا یعنی اگر ارادہ کا خارج میں بھی کوئی وجود ہوتا، جب کہ ہمارے اعضا کا وجود ہے، تو پھر معاملہ جبر تک پہنچ جاتا یعنی اگر ہمارا اِرادہ بھی ہمارے اعضا کی طرح مخلوق ہوتا اور ہمیں اس کے بارے میں اختیار تو نہ دیا جاتا لیکن اس کے بارے میں سوال ضرور کیا جاتا تو ہمارے افعال میں سے کسی فعل کی بھی ہم پر کوئی ذمہ داری نہ ہوتی۔ کسی کو بھی اپنی نیکیوں پر ثواب طلب کرنے کا حق حاصل نہ ہوتا کیونکہ اسے تو یہ کام بہرحال کرنا ہی تھا اور نیکیوں اور گناہوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کا اسے کوئی حق حاصل نہ ہوتا، جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ معاملہ اس طرح نہیں ہے پس انسان کا ارادہ بذاتِ خود مخلوق نہیں ہے، موجود بھی نہیں ہے بلکہ اسے ایک اعتباری وجود عطا کیا گیا ہے۔‘‘
٭ اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ کے فعل خلق اور بندے کے کسب کو ص۱۴۱ پر یوں واضح کرتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے بجلی کا جو نظام وضع فرمایا ہے ، وہ تمہارے سوئچ آن کرنے سے ماحول کو روشن کردیتا ہے لیکن بجلی کے نظام سے روشنی پیدا کرنا اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کے ساتھ خاص ہے، جس نے اسے بنایا ہے اور انسان کے اس سے جزئی طور پر کام لینے کو ہم انسان کے کسب یا جزئی ارادے سے تعبیر کرتے ہیں ، جب کہ خلق اور ایجاد کا مسئلہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔‘‘
٭ مشیت ِ الٰہی کی وضاحت کرتے ہوئے معتزلہ اور جبریہ کا ص۸۳ پر یوں ردّ کرتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کی مشیت کا عدم اور وجود دونوں سے تعلق ہے، ورنہ معاملہ اس طرح نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کا جب کسی چیز سے تعلق ہوجائے تو وہ ہوجاتی ہے اور اگر وہ تعلق نہ ہو تو نہیں ہوتی۔ یہ فہم کی غلطی ہے کیونکہ کسی چیز کے ساتھ مشیت ِالٰہی کا عدم تعلق بالکل نہیں ہے کیونکہ عدم بھی وجود ہی کی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مشیت کے قبضہ میں ہے۔ اگر معتزلہ و جبریہ حدیث کے مفہوم اور اس کے دقیق معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو اس گمراہی میں مبتلا نہ ہوتے جس میں وہ مبتلا ہوگئے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں معاملہ کی بیک وقت وضاحت فرمائی ہے۔‘‘
٭ جبریہ کی گمراہی کا سبب بیان کرتے ہوئے ص۱۰۱ پر لکھتے ہیں :