کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 76
پوپ سے ملاقات کی۔
ان کے خطبات، مواعظ، لیکچرز اور مجالس پر مشتمل ہزاروں کی تعداد میں کیسٹیں لوگوں کی رہنمائی کے لیے موجود ہیں ، اس کے علاوہ ان کی مطبوعہ کتب کی تعداد۲۲ ہے، جن میں سے کئی کتابیں ایک سے زیادہ جلدوں پر مشتمل ہیں ۔ کئی کتابوں کا ترجمہ انگریزی، جرمن، بلغاری، البانوی، انڈونیشی، روسی اور کورین زبانوں میں ہوچکا ہے۔ اُردو زبان میں ان کی ۸ کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں ایک زیر نظر کتاب بھی ہے۔
ان کی یہ کتاب چار فصلوں پر مشتمل ہے، ہر فصل کے ذیلی عنوانات ہیں :فصل اوّل میں تقدیر کا مختلف جہتوں سے جائزہ لیا گیا ہے اور اس کے اہم ذیلی عنوانات یہ ہیں : تقدیر کے لغوی اور اصطلاحی معنی، مسئلہ تقدیر وجدانی ہے، تقدیر اور جزوی اِرادہ میں تضاد نہیں ، اللہ تعالیٰ کی مشیت اور انسان کا اِرادہ، تقدیر آیاتِ کریمہ اور احادیث ِ شریفہ کی روشنی میں ۔
فصل دوم میں قضا کا تقدیر سے تعلق بیان کیا گیا ہے اور اس کے اہم ذیلی عنوانات یہ ہیں : قضا و قدر علم الٰہی کی حیثیت سے، قضا و قدر تحریر کی حیثیت سے، قضا و قدر مشیت ِالٰہی کی حیثیت سے اور قضا و قدر بحیثیت ِمخلوق۔
فصل سوم میں تقدیر، اِرادہ اور ہدایت کا آپس میں تعلق بیان کیا ہے۔ چوتھی فصل میں تقدیر سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں جن میں اہم یہ ہیں : ارادہ کے جزئیات و کلیات، مشیت ِالٰہی اور انسان کی آزادی، کلی اور جزوی اِرادے کی ماہیت۔
٭ تقدیر کے لغوی اور اصطلاحی معنی کے ضمن میں محمد فتح اللہ گولن ص ۱۹ پر یوں رقم طراز ہیں :
’’قدر کے لغوی معنی اندازے کے ہیں اور کسی کام کی تدبیر کرنے، اس کا فیصلہ کرنے اور اس کے بارے میں حکم صادر کرنے کے بھی ہیں ۔ ان تمام معانی سے ہم یہ بات اخذ کرتے ہیں کہ قدر کے اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ وہ فیصلہ جس کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اندازہ مقرر فرما دیا اور اس کے بارے میں فیصلہ کردیا۔ اس مذکورہ بالا تعریف کی آیات ِکریمہ سے تائید ہوتی ہے۔‘‘
٭ تقدیر کی اہمیت کو مصنف ص۲۱ پر یوں بیان کرتے ہیں :
’’تقدیر کو فقط علم کا عنوان قرار دینا صحیح نہیں ہے کیونکہ تقدیر کے معنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اپنے علم کے ساتھ اشیا کی تعیین و تقدیر سے بڑھ کر اس کے سمع و بصر، ارادہ اور مشیت تک کو اپنے