کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 75
امام صاحب کے قول کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ تقدیر میں ہر شخص کے لیے گفتگو جائز نہیں ، اس مسئلہ میں گفتگو صرف اس حاذق اور ماہر شخص کو کرنی چاہئے، جو زَرگر کی طرح ماہر اور کیمیا گر کی طرح حاذق ہو۔موجودہ دور میں مادی فلسفہ پوری دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور وہ عقائد میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر تنقید کو پروان چڑھانے میں مصروفِ عمل ہے، تو ایسے میں مادّہ پرستوں نے محسوس کیا کہ تقدیر پر بحث کے ذریعے لوگوں کو آسانی سے گمراہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اُنہوں نے پوری شدت کے ساتھ ان مسائل کو بیان کرنا شروع کردیا جبکہ مسلمان ان مسائل میں غوروخوض کرنے میں حرج محسوس کیاکرتے تھے۔ زیر نظر کتاب ’’تقدیر؛ کتاب و سنت کی روشنی میں ‘‘ ایسے ہی مادہ پرست افراد کے لیے ایک تحفہ ہے جس میں جناب محمد فتح اللہ گولن نے مسئلۂ تقدیر کو کتاب و سنت کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کی ہے اور بڑی حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں ۔ جناب محمد فتح اللہ گولن ترکی کے صوبہ ’ارضروم‘ کے شہر ’حسن قلعہ‘ کے ایک گاؤں ’کوروجک‘ میں ۱۹۳۸ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ایک دیندار گھرانے میں پرورش پائی۔ آپ کے والد ’رامز آفندی‘ علمی، ادبی اور دینی لحاظ سے قابلِ احترام شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ اُنہوں نے عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی اور دینی علوم اپنے علاقے کے ممتاز اساتذہ سے حاصل کئے۔ اسی دوران ’طلبۂ نور‘ کی تحریک سے متاثر ہوئے۔ یہ تجدید واِحیا کی ایک ہمہ گیر تحریک تھی جس کے بانی و قائد ’رسائل النور‘ کے مؤلف علامہ بدیع الزمان سعید نورسی تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے مطالعے میں وسعت اور آپ کی معلومات میں تنوع پیدا ہوتا گیا۔ آپ نے مغربی و مشرقی تہذیب اور فکر و فلسفے کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور عصری علوم جیسے فزکس، کیمیا، فلکیات اور حیاتیات وغیرہ سے بھی واقفیت حاصل کی۔ جناب محمد فتح اللہ گولن نے ۱۹۹۰ء کے بعد مختلف جماعتوں ، صحافیوں ، تعلیم یافتہ طبقوں اور مذاہب و اَفکار کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور مکالمے کی تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کے اثرات نہ صرف ترکی میں بلکہ ترکی سے باہر بھی محسوس کیے گئے۔ اس تحریک کے اثرات کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پوپ کی دعوت پر جناب فتح اللہ گولن نے ویٹی کن سٹی میں