کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 74
تعارف و تبصرہ ڈاکٹر تاج الدین الازہری٭
’’مسئلہ تقدیر؛ کتاب و سنت کی روشنی میں ‘‘
مصنف:محمد فتح اللہ گولن ٭[1] مترجم: محمد خالد سیف ٭ صفحات :۱۶۲
شائع کردہ: ہارمونی پبلی کیشنز، اسلام آباد ٭ سالِ اشاعت : ۲۰۰۹ء
تقدیر پر ایمان لانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسلام کے ارکانِ خمسہ کے طرح ایمانیات میں چھ چیزیں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے پر ایمان لانا شامل ہے۔ اس چھٹی شے تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ دیگر پانچ ارکان کے بغیر تقدیر پر ایمان کا پورا ہونا ممکن نہیں ، ایسے ہی تقدیر کے بغیر باقی چیزوں پر ایمان کو بھی مکمل نہیں کہا جاسکتا۔
مسئلہ تقدیر کو اسلام کے ابتدائی ایام ہی سے بڑے مشکل مسائل میں شمار کیا جاتا ہے جن میں ہرلمحہ قدم پھسلنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اسی وجہ سے علماء نے اس کے بنیادی اُصولوں کو آیاتِ کریمہ اور احادیث ِشریفہ کی روشنی میں اجمالی طور پر بیان کیا ہے اور اس کے متفرق اور عمیق پہلوؤں سے بحث نہیں کی تاکہ عوام الناس کو اس مسئلہ کی دقیق تفاصیل کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس طرح گمراہ ہونے سے بچایا جاسکے جن سے وہ آشنا ہی نہیں ۔ تقدیر کے مسائل کی اسی نزاکت کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے شاگردوں کو ان میں بحث و مباحثہ سے منع فرماتے تھے اور آپ سے جب پوچھا جاتا کہ آپ اس مسئلہ میں کیوں گفتگو فرماتے ہیں تو جواب دیتے کہ ’’میں اس مسئلہ میں اس طرح ڈرتے ہوئے گفتگو کرتا ہوں گویا میرے سر پر پرندہ بیٹھا ہو۔‘‘
[1] ٭ پروفیسر کلیۃالدراسات الاسلامیۃ ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد