کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 72
گیا تھا اور اس کی تفصیل پچھلے صفحاتمیں گزر چکی ہے۔صحیح بخاری میں سیدنا محمود بن الربیع کا بیان ہے، وہ فرماتے ہیں :
’’میں نے (نفل نماز کی جماعت والی یہ) حدیث ایک ایسی قوم کے سامنے بیان کی کہ جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی (اور میزبان) سیدنا ابوایوب انصاری بھی تھے اور اُنہوں نے اسی غزوہ کے دوران وفات پائی اور یزید بن معاویہ اس لشکر پرسالار تھے۔‘‘ [صحیح بخاری: ۱۱۸۶]
’’معاویہ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ پر جو لشکر کشی کی تھی، ان میں ایک لشکر سردیوں میں (شواتی) اور دوسرا گرمیوں میں (صوائف) حملہ آور ہوتا تھا۔ [البدایہ:۸/۱۲۷] ان لشکروں میں الصائفة (اپریل ۶۷۲ء تاستمبر ۶۷۲ء ) کا سالار یزید تھا۔ [دیکھئے خلافت ِمعاویہ و یزید: ص۴۳۵] اور عام کتب ِتاریخ‘‘ [ماہنامہ الحدیث، حضرو : شمارہ نمبر۶،ص۹]
پاک و ہند میں یزید کے جنتی ہونے کا نظریہ کس نے پیش کیا؟
یزید بن معاویہ کے جنتی ہونے کا نظریہ پاک و ہند میں سب سے پہلے محمو داحمد عباسی نے پیش کیا۔ یہ شخص کٹر ناصبی عقائد کا حامل تھا اور اس نے اپنی کتاب ’خلافت ِمعاویہ و یزید‘ اس زمانے میں تحریر کی کہ جب وہ چینی سفارتخانہ میں ملازم تھا۔ میں بھی جب اس کی اس تحقیق جدید سے متاثر ہوا تھا تو اس سے ملاقات کے لیے اس کے گھر گیا اور میں نے دورانِ گفتگو اس سے کہا کہ آپ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سر کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے متعلق تمام روایات وضعی ہیں جبکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک ابن زیاد کے سامنے پیش کیاگیا۔ عباسی صاحب نے کہا: ’’ہاں ! بخاری گدھے نے یہ بات لکھی ہے۔‘‘ (معاذ اللہ)
میں نے جب اُس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق یہ گستاخی سنی تو مجھے سخت صدمہ پہنچا اور عباسی صاحب کی عقیدت کاسارا نشہ اسی وقت اُتر گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے تحقیق کی توفیق عنایت فرمائی۔ وللہالحمد
دراصل محمود احمد عباسی نے یہ سب کچھ تحقیق کے نام سے پیش کیا تھا جس سے عام تعلیم یافتہ طبقہ کافی متاثر ہوا اور بعض علماء کرام بھی ان کی تحقیق سے متاثر ہوکر ان کے دامن گرفتہ ہوگئے اور پھر ان کی تحقیق ایسی بلند ہوئی کہ انہوں نے صحیح بخاری پربھی ہاتھ صاف کردیا جیسا کہ