کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 70
متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ وہ صدوق من الثالثہ ہیں ۔ [التقریب:۷۹۰۶ ] اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :امام نسائی نے اُنہیں ثقہ کہا اور ابن حبان نے اُنہیں الثقات میں ذکر کیاہے۔ امام ابن مدینی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ جس نے اس سند میں سے بکیرکے والد کا واسطہ گرایا ہے، وہ محمد بن اسحق ہیں اور یہ روایت منقطع ہے اور کہا کہ یہ اسناد حسن ہے سوائے اس کے کہ عبید بن تعلی نے احادیث کی سماعت نہیں کررکھی ہے اور ان کی روایت کو بکیر بن اشج کی ان سے روایت نے مضبوط کردیا کہ وہ صاحب ِحدیث ہیں اور ہم اس سے ابوایوب انصاری کی اس حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نہیں جانتے اور عبدالحمید بن جعفر نے اس روایت کوسند سے بیان کیاہے اور اسے عمدہ قرار دیا۔ [التہذیب:۷/۶۱] محدثین نے اس حدیث کو دوسندوں سے بیان کیاہے: ایک سند میں بکیر بن اشج اور ابن تعلی کے درمیان عن أبیہ کا واسطہ ہے اور دوسری سندوں میں یہ واسطہ نہیں ہے۔امام سعید بن منصور، امام احمد بن حنبل اور ابن حبان وغیرہ۔ ابن وہب کے واسطے سے عن ابیہ کاذکرنہیں کیا ہے۔ نیز امام محمد بن اسحق نے اس روایت کو دونوں طرح سے روایت کیا ہے۔ لہٰذا یہ روایت عن بکیر عن ابن تعلی بھی درست ہے کیونکہ بکیر بعض صحابہ کرام سے بھی حدیث کے راوی ہیں لہٰذا ابن تعلی سے ان کا سماع ناممکن نہیں ہے بلکہ اُنہوں نے ابن تعلی سے اس حدیث کاسماع کیا ہے چنانچہ ابن حبان میں یہ الفاظ موجود ہیں : عن بکیر بن الأشج عن عبید بن تعلی سمعہ یقول سمعت أبا أیوب الأنصاري [۵۵۸۰] جس سے ثابت ہوا کہ یہ سند صحیح و متصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ شیخ شعیب ارناؤط نے صحیح ابن حبان کی تحقیق میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ نیز حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے کیونکہ دوسرے محدثین بھی اسے بغیر واسطے کے روایت کرتے ہیں ، لہٰذا یہ روایت منقطع نہیں ہے۔ اس وضاحت سے کئی باتیں ثابت ہوئیں : 1. قسطنطنیہ پر ان حملوں کے دوران پوری جماعت پرعبدالرحمن بن خالد بن الولید امیر تھے اور اہل شام پر فضا لہ بن عبید اوراہل مصر پر عقبہ بن عامر جہنی امیر تھے۔