کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 67
میں امیر لشکرعبدالرحمن بن خالد بن ولید تھے، بعض میں فضالہ بن عبید اور بعض میں یزید بن معاویہ اور بعض میں کوئی اور؛ لہٰذا جامع ترمذی کی روایت سے بھی پروفیسر صاحب کا یہ دعویٰ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ قسطنطنیہ پر صرف اور صرف ایک ہی حملہ ہوا ہے اور اس حملہ میں یزیدبھی موجود تھا۔ یاد رہے کہ سنن ابو داؤد کی ایک دوسری روایت [کتاب الجہاد، باب ۱۲۹ فی قتل الاسیر بالنبل حدیث: ۲۶۸۷] سے بھی عبدالرحمن بن خالد بن ولید اور سیدنا ابوایوب کا مل کر جہاد کرنا ثابت ہوتاہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
٭ سنن ترمذی کی روایت میں وعلی الجماعة فضالة بن عبید کے جو اَلفاظ آئے ہیں ، ان کا وہم ہونا کئی وجوہ سے ثابت ہے :
1. حیوہ بن شریح کے تمام شاگرد وعلی أھل الشام فضالة بن عبید کے الفاظ روایت کررہے ہیں ۔
2. یہ الفاظ سنن ترمذی کے علاوہ دوسری کسی کتاب میں نہیں ہیں ۔
3. محققین٭ نے ترمذی کی روایت کے وہم کی طرف اشارہ کیا ہے۔
[٭ محققین سے مراد سید حلیمی اور صبری شافعی ہیں ۔ یہ وہی محققین ہیں جن کا حوالہ پروفیسر محمد شریف نے دیاہے۔ ہفت روزہ اہل حدیث لاہور: ج۲۹/ شمارہ ۱۹، ص۱۰ کالم نمبر ۱ اور آگے جاکر اسی صفحہ پرکالم نمبر۲ پر لکھتے ہیں : ’’حافظ زبیر صاحب نے جو تفسیر نسائی کے حاشیہ کا حوالہ دیا، یہ ایک مبہم حوالہ ہے، محشی کون ہے؟ اس نے یہ الفاظ کہاں سے لئے؟‘‘سبحان اﷲ!
خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی لکھتے ہیں :
’’فظھر بھذہ الروایات أن عبدالرحمٰن بن خالد کان أمیرًا علی الجمیع‘‘ [بذل المجہود: ج۱۱/ ص۴۳۵]
یعنی ’’ان روایات سے ظاہر ہوا کہ سیدنا عبدالرحمن بن خالد تمام لشکر پرامیر تھے۔‘‘
تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ پر کئی حملے ہوئے ہیں ۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے رومیوں کی زمین پر سولہ مرتبہ فوج کشی کی۔ [البدایہ : ج۸/ ص۳۳ ۱] ایک لشکر سردیوں (شواتی) میں اور دوسرا گرمیوں (صوائف) میں حملہ آور ہوتا۔ [ایضاً: ص ۱۲۷]