کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 66
جیسے راویوں سے حجت پکڑی ہے۔‘‘ اس عبارت سے بھی دوسری بات کی تائید ہوتی ہے اور یہی راجح ہے۔ لہٰذا علیٰ شرط الشیخین وغیرہ عبارات سے بعض محققین عصر کا حاکم و ذہبی کے بارے میں پروپیگنڈہ کرنا صحیح نہیں ہے، مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔ ان شاء اللہ یاد رہے کہ اَوہام اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ اِس لشکر کے اُمرا کون کون تھے؟ سنن ابو داود کی اس صحیح حدیث سے معلوم ہواکہ اس لشکر میں مصریوں کے امیر سیدنا عقبہ بن عامر اور شامیوں کے امیر سیدنا فضالہ بن عبید تھے جبکہ پورے لشکر کے امیر سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن الولید تھے۔ حیوہ بن شریح کے سارے شاگرد اہل مصر کا امیر عقبہ بن عامر کو قرار دیتے ہیں اور یہی بات لیث بن سعد اور ابن لہیعہ کی روایت عن یزید بن ابی حبیب میں ہے۔ کما تقدّم لہٰذا یہ بات اِجماعی واتفاقی ہے۔ حیوہ کے دونوں شاگرد عبداللہ بن یزید المقرئ٭[1] اور عبداللہ بن المبارک بالاتفاق یہ بیان کرتے ہیں کہ اہل شام کے امیر فضالہ بن عبید تھے۔ یہی بات لیث بن سعد و ابن لہیعہ کی روایت میں ہے۔لیث بن سعد اور ابن لہیعہ کی روایت میں بھی اہل شام کا امیر فضالہ بن عبید کو قرار دیا گیا ہے۔ البتہ ضحاک بن مخلد کے شاگردوں میں اس بابت اختلاف ہے۔ عبد بن حمید کی روایت میں : وعلی الجماعة فضالة بن عبید کے الفاظ ہیں ۔ (سنن ترمذی) جبکہ عمرو بن ضحاک اور عبید اللہ بن سعید کی روایتوں میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ضحاک بن مخلد کی روایت ابن المبارک وغیرہ کی مخالفت اور اپنے شاگردوں کے اختلاف کی وجہ سے شاذ و مردود ہے۔ اگر یہ صحیح بھی ہوتی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ قسطنطنیہ پر بہت سے حملے ہوئے ہیں ۔ بعض
[1] ٭ اس سند پر ایک بحث ہفت روزہ اہل حدیث 6 29، شمارہ نمبر 19 ، ص 10 کے شمارہ میں شائع ہو چکی ہے جس میں ابو عبد الرحمن المقری پر جرح کی گئی ہے ۔ صاحب مضمون پروفیسر محمد شریف کا ابو عبدالرحمن المقری پر جرح کرنا شیخ الاسلام ابن المبارک کی متابعت [ السنن الکبریٰ للنسائی ج 6/ص 299 ح 11029 ، و تفسیر النسائی ج 1/ص 238 ، ح 49] کی وجہ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ المقری کے دفاع کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔