کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 65
2. ابن وہب کی سند کی متابعت بھی موجود ہے۔ حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا :
أخبرنا أبو محمّد بن الأکفاني بقرأتي علیہ قال: ثنا عبدالعزیز بن أحمد: أنبأ أبو محمد بن أبي نصر: أنا أبو القاسم بن أبي العقب: أنا أحمد بن إبراہیم القرشي ثنا ابن عائذ: ثنا الولید: ثنا عبد اللّٰه بن لهيعة واللیث بن سعد عن یزید عن أبي عمران التجیبي قال: غزونا القسطنطينية وعلی أھل مصر عقبة بن عامر الجھني وعلی الجماعة عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید [تاریخ دمشق مصور: ج۹/ ص۹۲۹]
اس سند میں لیث بن سعد کتب ِستہ کے مرکزی راوی اور ’’ثقة ثبت فقیہ إمام مشہور‘‘ ہیں ۔ [تقریب التہذیب: ص۸۱۷]
لیث بن سعد نے ابن وہب کے اُستاد حیوہ بن شریح کی ’متابعت ِتامہ‘ کررکھی ہے۔والحمدللّٰه
3. حافظ ابن حجر کی تحقیق بھی یہ ہے کہ ابنِ وہب مدلس نہیں تھے۔ [دیکھئے النکت علیٰ ابن الصلاح: ج۲/ ص۶۳۷]
نوٹ: راجح یہی ہے کہ عبداللہ بن وہب رحمۃ اللہ علیہ ثقہ ہونے کے ساتھ مدلس بھی تھے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سنن ابی داؤد کی اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے۔ اسی وجہ سے امام حاکم اور ذہبی نے اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ اگر شرط سے مراد یہ لیا جائے کہ اس سند کے تمام راوی بخاری و مسلم کے ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ بات وہم ہے کیونکہ اسلم صحیح بخاری یا مسلم کے راوی نہیں ہیں اور اگر یہ مراد لیا جائے کہ اس کے راوی بخاری و مسلم کے راویوں کی طرح ثقہ ہیں ، سند متصل ہے اور شاذ یا معلول نہیں تو یہ بات بالکل صحیح ہے۔ مستدرک کے مطالعہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام حاکم صحیح بخاری و مسلم کے راویوں یا ان جیسے ثقہ راویوں کی غیرمعلول روایت کو صحیح علیٰ شرط الشیخین أو علی أحدھما کہہ دیتے ہیں اور حافظ ذہبی ان کی موافقت کرتے ہیں جیسا کہ حاکم فرماتے ہیں : ’’وأنا اَستعین اللّٰه علیٰ إخراج أحادیث رواتھا ثقات قد احتج بمثلھا الشیخان رضي اللّٰه عنھما أو أحدھما‘‘[المستدرک:ج۱/ ص۳] یعنی’’میں اللہ کی مدد مانگتا ہوں ان احادیث کی روایت کے لیے جن کے راوی ثقہ ہیں ۔بخاری ومسلم یا صرف بخاری یا صرف مسلم نے ان راویوں