کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 64
اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔‘‘ یہ سن کر سیدنا اَبوایوب اَنصاری نے فرمایا کہ یہ آیت تو ہم انصاریوں کے بارے میں اتری ہے۔ (واقعہ یہ ہے) کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی اور اسلام کو غلبہ نصیب فرمایا تو ہم نے کہا تھا کہ اب تو ہم کو مدینہ میں رہ کر اپنے اَموال کی خبرگیری اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ دینا چاہئے۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت ِشریفہ نازل فرمائی: ﴿وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی االتَّهْلُكَةِ﴾ [البقرۃ:۱۹۵] ’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘ لہٰذا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا تو جہاد کو چھوڑ کر ہمارا اپنے اَموال کی خبرگیری اور اس کی اصلاح کے خیال سے اپنے گھروں میں بیٹھ رہنا تھا۔ سیدنا ابوعمران کہتے ہیں کہ سیدنا ابوایوب مسلسل اللہ کی راہ میں جہاد ہی کرتے رہے تاآنکہ وہ دفن بھی قسطنطنیہ میں ہوئے۔‘‘ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’سنن ابوداود والی روایت بالکل صحیح اور محفوظ ہے جس کی سند مع متن یہ ہے: ابن وھب عن حیوۃ بن شریح عن یزید بن أبي حبیب عن أسلم أبي عمران قال: غزونا من المدينة نرید القسطنطينية وعلی الجماعة عبد الرحمٰن بن خالد بن الولید… الخ‘‘ ’’اسلم ابوعمران سنن ابی داؤد، ترمذی و نسائی کے راوی اور ثقہ تھے۔ [تقریب التہذیب: ص۱۳۵] یزید بن ابی حبیب کتب ِ ستہ کے راوی اور’’ثقة فقیہ وکان یرسل‘‘ ہیں ۔ [ایضاً ص۱۰۷۳] وکان یُرسلکوئی جرح نہیں ہے۔ حیوہ بن شریح صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ تھے۔ [ایضاً ص۲۷۲ بہ تحقیق شیخ ابو اَشبال شاغف] عبد اللہ بن وہب کتب ِستہ کے بنیادی راوی اور ثقہ حافظ عابد ہیں ۔ [تقریب التہذیب:ص۵۵۶] صحیح بخاری میں ان کی تقریباً ایک سو تیس روایات موجود ہیں ۔آپ اُصولِ حدیث کی ایک قسم الرواية بالإجازۃ کے قائل تھے جو کہ ایک مستقل فقہی موقف ہے اور راجح بھی یہی ہے کہ روایت بالا جازۃ جائز ہے۔ دیکھئے مقدمة ابن الصلاح وغیرہ ابن سعد نے آپ پر تدلیس کا الزام لگایا ہے جو کہ (اس روایت میں ) کئی لحاظ سے مردود ہے: 1. اس روایت میں ابن وہب نے سماع کی تصریح کررکھی ہے۔