کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 58
اور سپہ سالار امیرالمومنین کے لائق فرزند امیر یزید تھے۔ یہی وہ پہلا اسلامی جیش ہے جس نے قسطنطنیہ پرجہادکیا۔‘‘ [خلافت ِ معاویہ و یزید: ص۷۳]
٭ اور اسی قول کو محمود احمدعباسی صاحب کے لائق شاگرد جناب محمد عظیم الدین صدیقی نے اپنی کتاب ’حیاتِ سیدنا یزید‘ میں اختیار کیا ہے۔ [ص۶۷]
٭ امام خلیفہ بن خیاط اپنی تاریخ میں ۵۰ھ کے ضمن میں لکھتے ہیں :
’’اور اسی سن میں یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ نے ارضِ روم میں جہاد کیا اور ان کے ساتھ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی تھے۔‘‘ [تاریخ خلیفہ بن خیاط: ص۲۱۱]
٭ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ۵۲ھ کا عنوان قائم کرکے اس کے ضمن میں سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی وفات کا ذکر کیا ہے اور ۵۲ھ کے قول کو سب سے زیادہ قوی قرار دیاہے۔‘‘ [البدایۃ والنہایۃ: ج۸/ ص۵۹]
٭ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’اور یہ غزوئہ مذکور ۵۲ھ میں ہوا اور اسی غزوہ میں اَبو اَیوب انصاری رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور اُنہوں نے وصیت فرمائی کہ اُنہیں قسطنطنیہ کے دروازہ کے قریب دفن کیا جائے۔‘‘ [فتح الباری: ۶/۱۰۳]
علماے کرام کے اَقوال میں تضاد و اِضطراب
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے ایک طرف یزید بن معاویہ کے لشکر کو اوّل جیش کا مصداق قرار دیا ہے جیسا کہ پہلے گزرا ہے لیکن پھر یہی علما یہ بات نقل کرتے ہیں کہ یزیدبن معاویہ کا یہ حملہ ۴۹ھ سے شروع ہوا تھا اور اس کی سب سے بڑی دلیل صحیح بخاری کی وہ روایت ہے کہ جس میں سیدنا محمود بن الربیع کا یہ بیان موجود ہے کہ یزید بن معاویہ اس لشکر کے سالار تھے جس میں ابوایوب انصاری بھی شریک تھے اور اس میں اُنہوں نے وفات پائی تھی۔ [صحیح بخاری:۱۱۸۶] اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی وفات ۵۲ھ میں ہوئی حالانکہ دیگر تاریخی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس غزوہ سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر کئی حملے ہوچکے تھے جن کا ذکر احادیث اور تاریخ کی کتب میں موجود ہے اور ان کو آگے ذکر کیا جارہا ہے۔
اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ یہ حملہ نہ تو پہلا حملہ ہے اور نہ ہی ان کا لشکر ’اوّل جیش‘ کا