کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 57
وہیں دفن کردینا اور واپس آجانا۔ جب ان کی وفات ہوگئی تو اُنہیں سوار کیاگیا اور جہاں تک ممکن ہوسکا، اُنہیں دشمن کی زمین میں لے جایاگیا پھر اُنہیں وہاں دفن کیاگیا اور (لوگ) واپس آگئے اور سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایاہے: ﴿انفروا خفافا وثقالاً﴾ یعنی ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلو، چاہے تم ہلکے ہو یا بھاری۔‘‘ میں اپنے آپ کو سبک بارپاتا ہوں یاگراں بار۔‘‘ [الطبقات الکبرٰی از امام محمد بن سعد: ج۳/ ص۳۶۹، مستدرک حاکم: ج۳/ ص۴۵۹] اس واقعہ کو حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مسنداحمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے نقل کیاہے۔ دیکھئے البداية والنھاية: ج۸/ ص۵۸،۵۹ ان روایات کاخلاصہ یہ ہے کہ یزیدبن معاویہ جسلشکر کے سالار تھے اور جس نے ان کی امارت میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا تھا، اس میں سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ شریک تھے اور اسی لشکر میں اُنہوں نے وفات پائی تھی اور اہل سیر کا اس پر اتفاق ہے کہ سیدنا ابو اَیوب انصاری رضی اللہ عنہ کی وفات۵۰ھ یا ۵۲ھ میں ہوئی ہے اور اہل سیر نے ذکر کیا ہے کہ یزیدبن معاویہ کا یہ حملہ ۴۹ھ میں شروع ہوا تھا۔ ٭ چنانچہ حافظ ابن کثیر ۴۹ھ کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں : ’’اسی سال یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ نے بلادِ روم کے ساتھ جنگ کی حتیٰ کہ سادات صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں سیدنا ابن عمر، سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن زبیر اور سیدنا ابوایوب انصاری شامل تھے، قسطنطنیہ پہنچ گیا۔‘‘ آگے لکھتے ہیں : اور اسی میں سیدنا ابوایوب خالد بن زید انصاری رضی اللہ عنہ اور بعض کا قول ہے کہ ان کی وفات اس غزوہ میں (اس سال) نہیں ہوئی بلکہ اس کے بعد ۵۱ھ یا۵۲ھ یا ۵۳ھ کے غزوات میں ہوئی جیسا کہ ابھی بیان ہوگا۔ [البداية والنہاية: ج۸/ ص۳۲] ٭ چودھویں صدی میں ناصبیوں کے امام جناب محمود احمد عباسی نے بھی لکھا ہے : ’’چنانچہ ۴۹ھ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جہادِ قسطنطنیہ کے لیے بری اور بحری حملوں کا انتظام کیا۔ بری فوج میں شامی عرب تھے خصوصاً بنی کلیب جو امیر یزید کا ننہالی قبیلہ تھا، ان کے علاوہ حجاز قریش غازیوں کا بھی دستہ تھا جس میں صحابہ کرام کی ایک جماعت شامل تھی۔ اس فوج کا امیر