کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 54
کا بھی ذکر کیا اور بعض نے اُنہیں پہلے لشکر میں شامل سمجھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس آخری لشکرمیں شامل ہوا تھا کہ جس میں سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تھی جس کو وضاحت صحیح بخاری کے حوالہ سے گزرچکی ہے اور جس کی مزید وضاحت آگے آئے گی۔یزید کے قسطنطنیہ والے لشکر میں شرکت کے متعلق علماے کرام کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں ۔
٭ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
’’مہلب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت بیان ہوئی ہے، اس لیے کہ اُنہوں نے سب سے پہلے سمندری جہاد کیا اور ان کے بیٹے یزید کی بھی منقبت بیان ہوئی ہے کیونکہ اُس نے سب سے پہلے قیصر کے شہر میں جہاد کیا۔‘‘ [فتح الباری:۶/۱۰۲]
مہلب بن احمد بن ابی صفرۃ اندلسی کی وفات ۴۳۵ھ میں ہوئی۔ [سیراعلام النبلائ:۱۳/۳۷۷] اور مذکورہ غزوہ ۵۲ھ میں ہوا تھا۔ یاد رہے کہ مہلب نے اپنے دعویٰ پر کوئی دلیل بیان نہیں کی ۔
٭ حافظ ابن کثیر بیان کرتے ہیں :
’’اور یزید پہلاشخص ہے جس نے یعقوب بن سفیان کے قول کے مطابق ۴۹ھ میں قسطنطنیہ کی جنگ کی اور خلیفہ بن خیاط نے ۵۰ ھ بیان کیاہے۔ پھراس نے سرزمین روم سے اس غزوہ سے واپس آنے کے بعداس سال لوگوں کو حج کروایااور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’اُمت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا، وہ مغفور ہے۔‘‘ اور وہ دوسری فوج تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ حرام رضی اللہ عنہا کے پاس اپنے خواب میں دیکھا تھا اور اُمّ حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ سے دُعا کریں کہ وہ مجھے ان میں شامل کردے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اوّلین میں سے ہے یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج میں شامل ہوگی جب وہ قبرص میں جنگ کریں گے پس سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں ۲۷ھ میں قبرص کو فتح کیااور اُمّ حرام رضی اللہ عنہا بھی ان کے ساتھ تھیں ۔ اُنہوں نے وہیں قبرص میں وفات پائی پھر دوسری فوج کا امیر ان کا بیٹا یزید بن معاویہ تھا اور اُمّ حرام رضی اللہ عنہا نے یزید کی اس فوج کونہیں پایا اور یہ دلائل نبوت میں سے ایک انتہائی بڑی دلیل ہے۔‘‘
[البداية والنھاية: ج۸/ ص۲۲۹]
٭ حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’اور اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جہادہرامیرکے ماتحت جائز ہے (چاہے وہ نیک ہو