کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 50
واقف ہے۔ کجا یہ کہ جس نے اُن کا قتل عام کیا، اس کی سزا تو بہت ہی سخت ہے۔ لہٰذا مکہ، مدینہ اور کربلا کے مقتولین کا خون یزید کے سر ہے جس کا حساب اور بازپرس اس سے ہونی ہے۔ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کوبغیر کسی دلیل کے جنتی قرار دینے والے ان حقائق کو بھی نگاہ میں رکھیں تاکہ اصل حقیقت تک رسائی پانے میں اُنہیں آسانی ہو۔ اب ہم اس یزید کے مغفور لہم میں سے ہونے کے دعویٰ کی طرف آتے ہیں ۔ ماضی کے بعض مؤرخین نے بھی ’اوّل جیش‘ کا ذکر کرتے ہوئے اس کا مصداق یزید بن معاویہ کو قرار دیا لیکن اس کی کوئی دلیل اُنہوں نے بیان نہیں کی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’ہر شخص کی بات دلیل کے ساتھ قبول اور دلیل کی بنا پر ہی ردّ کی جاسکتی ہے۔‘‘ لہٰذا اس سلسلہ میں ضرورت محسوس کی گئی کہ اس بات کی تحقیق کی جائے اور جہاں لوگوں کو اس سلسلہ میں غلطی لگی ہے، اسے بھی واضح کردیا جائے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی غلطی جس عبارت سے بعض محققین کو بھی لگی ہے ، وہ صحیح بخاری کے یہ الفاظ ہیں : قال محمود بن الربیع: فحدثتھا قومًا فیھم أبو أیوب صاحب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم في غزوتہ التي تُوفّي فیھا ویزید بن معاوية علیہم بأرض الروم… [صحیح بخاری: کتاب التہجد، باب۳۶، صلاۃ النوافل جماعة،ح:۱۱۸۶] ’’سیدنا محمو دبن الربیع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے (نفل کی جماعت کی) یہ حدیث ایک ایسی قوم کے سامنے بیان کی کہ جن میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور میزبانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی تھے اور اُنہوں نے اسی غزوہ میں وفات پائی اور یزید بن معاویہ اس لشکر پر سالار تھے۔‘‘ اس روایت سے معلوم ہوا کہ غزوئہ روم جس کے سپہ سالار یزیدبن معاویہ رضی اللہ عنہ تھے، اسی غزوہ میں ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے اور جنہوں نے اسی غزوہ کے دوران وفات بھی پائی۔ یہاں یہ واضح رہنا چاہئیکہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ جہادِ قسطنطنیہ میں شروع سے آخر تک شامل تھے اور معاویہ کے دورِ خلافت میں قسطنطنیہ پر یہ آخری غزوہ تھا کہ جس میں سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ وفات تک شریک رہے اور اس فوج کے سپہ سالار یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ تھے اور قسطنطنیہ پر حملوں کاآغاز حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہی کیا تھا جیسا کہ آگے تفصیل سے بیان ہوگا۔ اس مضمون کا مطالعہ کرنے والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ تنقیدی نظر سے اس