کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 5
طرف سے یہ وضاحتی ڈکلیریشن بھی غنیمت ہے کیونکہ اس سے یہ تو ثابت ہوا کہ امریکہ واقعتا اس بل کی آڑ میں ہماری خود مختاری کو پامال کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ جبکہ عملاً اس ڈکلیریشن سے بھی اصل بل کے اطلاق وتاثیر میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ 4.بعض مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستان میں امریکی سفارت خانے کی سرپرستی میں رَا کے انٹیلی جنس افسران کے ساتھ ہمارے سینئر سول ملازمین کی ملاقاتیں کروائی جا رہی ہیں تاکہ اُنہیں بھارت کی جانب سے جاسوسی پرمامور کیا جا سکے ۔ گزشتہ دنوں ایک ایسی ہی ملاقات کا اہتمام ایک سینئر امریکی سفارت کار کی رہائش گاہ پر کیا گیا۔ امریکی سفارت خانہ تمام آدابِ سفارت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمارے سینئر سول ملازمین کو را کے ایجنٹوں کے ساتھ متعارف کروانے کا اہتمام کیوں کر رہا ہے؟ اور کیا یہ ہماری خود مختاری پر ایک اعلانیہ وار نہیں ہے؟ 5. نئی افغان پالیسی کے تحت امریکہ نے مزید تیس ہزار اور نیٹو نے پانچ ہزار فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان فوجیوں کی آمد کا مقصد کیاہے جبکہ امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج کے اِنخلا کے لئے جولائی ۲۰۱۱ء کی تاریخ مقرر کر دی ہے؟اس کا واضح مقصد یہ ہے کہ ڈیڑھ سال میں پوری قوت کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کی نام نہاد جنگ لڑی جائے جس کے نتیجے میں یقینا پاکستان میں خود کش حملوں کی وارداتوں میں اضافہ ہو گا اور ایک امکان یہ بھی ہے کہ امریکی فوج کا کچھ حصہ پاکستانی حدود میں بھی داخل ہو سکتا ہے کیونکہ واشنگٹن پوسٹ میں یہ بات شائع ہو چکی ہے کہ امریکہ کی سپیشل آپریشن فورسز نے افغانستان کے بارڈر کے نزدیک اپنی بری ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں جو بوقت ِضرورت پاکستان کی حدود میں داخل ہو جائیں گی۔ کیا یہ پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ایک گھناؤنی سازش نہیں ہے؟ 6.امریکہ پاکستان میں اپنے سفارتی عملے میں اضافہ کر رہا ہے اور اس عملے کی حفاظت کی آڑ میں بلیک واٹر کی آمد بھی جاری ہے ۔ ہمارے وزیر داخلہ اگر چہ ملک میں بلیک واٹر کی غیر موجودگی کے دعوے کرتے رہتے ہیں لیکن اب ان کے ان دعوؤں کی کھلے عام تکذیب ہو